ماؤں اور اساتذہ سے معذرت

نوے کی دہائی میں جب میں سکول میں پڑھتا تھا تو راستے ہی میں لڑکیوں کا مڈل سکول پڑتا تھا جسے بعض ازاں ہائی کا درجہ مل گیا ارد گرد کے تمام گاؤں کی لڑکیاں وہیں تعلیم حاصل کرتیں تھیں اس وقت پرائیویٹ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے نہ ہی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رجحان تھا اس لئے سارے کا سارا بوجھ سرکاری اداروں کے ہی کندھوں پر تھا اڑھائی سے تین تین کلومیٹر کے اردگرد کے تمام گاؤں کے لڑکے اور لڑکیاں ان ہی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تھے لڑکے اور لڑکیاں تقریبا اکٹھے ہی گھروں سے آتے اور جاتے تھے راستے میں گندم مکئی باجرہ کی قد آدم سے بڑی فصلیں بھی ہوتی تھیں جن کے درمیان سے گزرتے ہوئے مرد بھی گھبراتا ہے لیکن اس وقت لڑکیاں بلا خوف وخطر سکول آتی اور واپس گھر جاتی تھیں اور یہ تمام سفر پیدل طے ہوتا تھا آج کی طرح گھر سے گاڑیاں نہیں اٹھاتیں تھیں گرمی سردی میں یہی معمول ہوتا تھا اس وقت سکول میں بچوں کا داخلہ پانچ سال کی عمر کے بعد ہوتا تھا اور میٹرک کے وقت اس دور میں لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں عموماً سترہ اٹھارہ سال ہو جاتی تھیں یعنی دونوں بالغ ہوتے تھے حتیٰ کہ ہمارے ایک سینئر لڑکے کی دوران تعلیم ہی شادی بھی ہو گئی تھی اس کے باوجود ہم نے کبھی بھی یہ نہیں سنا تھا کہ فلاں گاوں کے لڑکوں نے سکول جاتے یا واپسی پر لڑکی سے زیادتی کی ہو یا چھیڑا ہو اور نہ ہی یہ سنا تھا کہ لڑکی اور لڑکے نے بھاگ کر پسند کی شادی کر لی ہو (یہاں پر ضمناً بات کر دوں جو لڑکا یا لڑکی ماں باپ کی اجازت کے بغیر شادی کر لیتے ہیں ذرا سوچیئے جو اپنے ماں باپ جنھوں نے انہیں بڑے لاڈ پیار سے پالا ان کو تعلیم دلوائی اور اس مقام تک پہنچایا اگر وہ لڑکا یا لڑکی ان کی عزت کا پاس نہیں رکھ سکتے وہ کسی دوسرے کی عزت و ناموس کا پاس کیسے رکھ سکتے ہیں جس کے ساتھ ان کا تعلق جمعہ جمعہ آٹھ دن کا بھی نہیں) یہ شرم وحیاء کہاں سے آیا تھا جو دوسرے کی عصمت دری کی بجائے حفاظت کرتا تھا یہ سارا ماں مسجد و مدرسہ کی تربیت کا کمال تھا اور آج یہ تربیت ہم سے روٹھ گئی ہے اسی لیے آپ اخبار کھولتے ہیں تو سر ورق سرخی پر نظر پڑتی ہے ایک درندہ صفت انسان نے لڑکی کو اپنی حوص کا نشانہ بنا دیا ٹی وی آن کریں تو پہلی خبر یہی سننے کو ملتی ہے ایک بھیڑیے نے معصوم بچی کی عزت تار تار کر دی ہے سوشل میڈیا پر جائیں تو آپ کو دیکھنے کو ملے گا فلاں جگہ چند عقل سے عاری وحشت زدہ درندوں نے لڑکی سے اجتماعی زیادتی کی اب تو حیوانی خصلتیں اتنی بڑ گئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد قتل بھی کر دیا جاتا ہے اب تو ایک نئی اختراع نے جنم لیا ہے پہلے زیادتی کرو ساتھ ہی ویڈیو بناؤ اور بلیک میل کر کے پیسے بھی کماؤ اور کھاؤ ایسی ایسی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے اس طرز عمل میں تو ہم نے حیو ا نو ں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے میری دانست میں اس ساری اخلاقی گراوٹ کے سب سے زیادہ ذمہ دار والدین ہیں جن کی عدم توجہی نے ان کی اولادوں کو بگاڑ دیا ہے میرے نزدیک والدہ زیادہ قصور وار ہے اس کا لاڈ پیار اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی اصلاح کی بجائے پردہ ڈالنا اس کی نشان دہی چند روز قبل ہلال احمر کے چیئرمین ابرار الحق نے کی تو انہیں آگے سے کھری کھری سننے کو ملیں کیونکہ ہم سچ سننے کے عادی نہیں رہے اصل بات یہ ہے کہ ماں نے اپنا منصب ہی چھوڑ دیا ہے ماں نے اپنے بچے کی پرورش میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دی ہے پہلے وہ اسے اپنے سینے سے چمٹائے رکھتی تھی بچہ رو پڑے تو خوب بہلاتی تھی اب بچے کو موبائل بہلاتا ہے پہلے بچے کی لوری
اللہ تعالیٰ کا ذکر تھا لا الہ الااللہ میرا منا سو جا جو اس کے دین کے ساتھ تعلق کو پختہ کرتا تھا اب ابرار الحق کے گانے ہی لوری ہیں پہلے ماں کا دودھ بچے کی خوراک بنتا تھا جو اس کو اپنی روایات سے جوڑے رکھتا تھا لیکن اب لیکٹوجن اور طرح طرح کے دودھ اور نیسلے کا دلیہ ہی بچوں کی خوراک ہے کھانا بھی اپنی ایک تاثیر رکھتا ہے اسی لئے حرام سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے پہلے ماں سبق آموز کہانیاں سنا کر بچوں کی تربیت کرتی تھی اور آج موٹو اور پتلو کے کارٹون کے ذریعے کی جاتی ہے اگر کوئی بزرگ روک ٹوک کرے تو آگے سے کیا جواب آتا ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے جب پہلی درسگاہ ہی بنا استاد کے ہے تو پھر بچہ کیسے اور کہاں سے اخلاق سیکھے گا دوسری وجہ درس گاہیں ہیں جہاں پہلے ہمیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی پاسداری کی تربیت بھی دی جاتی تھی اگر کسی کی کوئی شکایت تعلیمی نہیں اخلاقی مل جاتی تو اسے سزا ملتی تھی تا کہ وہ دوبارہ غلطی نہ کرے اور اس کی غلطی کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہو جو اس کے لیے باعث عبرت ہوتی تھی لیکن اب تو ہم نے استاد سے یہ حق ہی چھین لیا ہے اب استاد اخلاقی غلطی تو دور کی بات ہے تعلیمی کمزوری پر بھی سزا نہیں دے سکتا اسی لیے یار لوگوں نے لوگو ہی بدل دیا ہے اب سکول کے باہر موٹے لفظوں میں لکھا ہوتا ہے مار نہیں پیار پہلے طالب علم ڈر کر پڑھتے تھے اب استاد ڈر کر پڑھاتے ہیں کہیں شکایت نہ کر دی جائے کہ استاد صاحب سختی کرتے ہیں استاد کی حیثیت کوہی ہم نے مکمل بدل دیا ہے دوسری بات (ذرا کڑوی ہے جسے کڑوی لگے وہ ذرا سوچ لے کہ اس میں اور اس کے استاد میں کتنا فرق ہے معذرت خواہ بھی ہوں) اب وہ تربیت یافتہ استاد بھی نہیں رہے جو اس منصب کو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل سمجھتے تھے وہ اخلاق و کردار میں اعلیٰ تھے وہ اس کو اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے وہ اتنے پیار خلوص اور دلگی کے ساتھ پڑھاتے تھے کہ بچوں کو کلاس میں ہی یادھو جاتا تھا اور آج معاملہ برعکس ہے یہی وجہ ہے کہ آج سالوں بیت جانے کے بعد بھی ہم ان کا ادب کرتے ہیں کہیں نظر آ جائیں تو نظریں چراتے نہیں بلکہ دوڑ کر استقبال کرتے ہیں اور یہی حال مساجد کا ہے وہاں پر بھی تربیت سے زیادہ فرقہ پرستی پر توجہ دی جاتی ہے جو مزید دین سے دوری کا باعث بن رہا ہے یہ بنیادی وجوہات ہیں میڈیا کے کردار کی تو بات ہی نہ کریں اگر آج ماں ماں اور استاد استاد بن کے دکھائیں تو آپ کو یہ خبریں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں گی ہائے افسوس آج ماں کی گود مسجد و مدرسہ سب نے اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے تو بقول علامہ اقبال
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الااللہ
(ماؤں اور اساتذہ سے معذرت خواہ ہوں)۔

اپنا تبصرہ بھیجیں