لیاقت علی خان کا قتل امریکہ کی سازش کا نتیجہ؟

16اکتوبر1951کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نو ابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام کے دوران گولی مارکر شہیدکر دیا گیا تھا اس واقعے کو ہوئے لگ بھگ سات دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اب تک یہ طے نہیں ہوا کہ پاکستان کی تاریخ کا رخ بدلنے والا یہ واقعہ کسی بڑی سازش کا شاخسانہ تھا یا کسی انتہا پسند کا انفر ادی فعل۔ اس قتل کے دس روز بعد ہی یعنی 25 اکتوبر 1951ء کو اس وقت کی حکومت نے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا جو فیڈ رل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پنجاب کے مالیاتی کمشنر اختر حسین پر مشتمل تھا اس کمیشن کا دائر ہ کار لیاقت علی خان کے قتل کے محرکات کا پتہ چلانا نہیں بلکہ یہ معلوم کرنا تھا کہ لیاقت علی خان کو کن حالات میں قتل کیا گیا اس موقع پر حفاظتی اقدامات کیسے تھے انتظامات کی کمی اور ناکامی کی ذمہ داری کس پر ہے اور کسی ایسی تقریب جہاں صف اول کے قائد ین موجود ہوں وہاں سیکیورٹی کے انتظامات کس نو عیت کے ہونے چاہیں در حقیقت اس کمیشن کا دائرہ کا ر محض انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے پولیس افسران قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کے بجائے ٖغفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو گئے

یہی وجہ تھی کہ جب اس کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تو لیاقت علی خان کی بیوی رعنا لیاقت علی خان نے ہی نہیں بلکہ عوام نے بھی اسے مسترد کرنے کا اعلان کر دیا اس کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت کے دس دن بعد 26اگست 1952کو پاکستان کے انسپکٹرجنرل سپیشل پولیس نوابزادہ اعتزاز الدین کراچی سے بدزیعہ ہوائی جہاز پشاوجا رہے تھے جب طیارہ کھیوڑہ کے مقام پر حادثے کا شکا ر ہوا صاحبزادہ اعتزازالدین بھی لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش کررہے تھے بتایا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ اس کیس کے بعض اہم کاغذات کی فائلز بھی تھیں جو اس حادثے کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گئیں حکومت نے اس کمیشن کی رپورٹ پر بیگم رعنا اور عوامی رد عمل کے پیش نظر ایک اور رپورٹ تیار کروائی جس کے لئے سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک مصروف سراغ رساں سی ڈبلیو یورین کی خدمات حاصل کی گئیں سی ڈیلویورین نے اس خدمات کے عوض دس ہزار برطانوی پاؤ نڈ بطور معاوضہ حاصل کئے اور 28نومبر 1954سے 16جون1955ایک قتل کی تفتیش کرتے رہے 25جون1955کو ان کی رپورٹ اشاعت کے لئے جاری کی گئی

ان کی تفتیش کا حاصل یہ تھا کہ لیاقت علی خان کا قتل کسی سازش کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ ایک انتہا پسند تھا اس دوران محکمہ پولیس نے سی آئی ڈی انسپکٹرشیخ ابرار احمد کو لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش پر مامور کیا شیخ ابراراحمد اس قتل کے وقت جلسہ گاہ میں موجود تھے اور انہوں نے لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر پر گولیاں چلانے والے انسپکٹر محمد شاہ کے ہاتھوں سے ریوالورچھینا تھا شیخ ابرار احمد کی تیار کردہ رپورٹ ان کی خو د نوشت سوانح نقوش زندگی میں شامل ہے اس رپورٹ کے مطابق لیاقت علی خاں کا قتل اگر چہ سیداکبر کا ذاتی فعل تھا تاہم انہوں نے بعض اخبار کو سید اکبر کی ذہنی حالت کو تبدیل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جن میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے خلاف مواد کی اشاعت معمول کی بات تھی لیاقت علی خان کے قتل کے آٹھ دن بعد ایک رپورٹ نما مضمون بھوپال سے شائع ہونے والے اردو روز نامہ ندیم میں شائع ہوا اس مضمون کی سرخی یوں تھی”کیا لیاقت علی خان کا قتل امریکہ کی گہری سازش کا نتیجہ ہے؟“
تیس اکتوبر 1951کو دلی میں امر یکہ کے سفارتخانے نے اس مضمون کی تلخیص کا تر جمہ ایک خفیہ ٹیلی گرام کے ذریعے امریکی وزارت خارجہ کو روانہ کیا مضمون کی تلخیص کچھ یوں کی گئی تھی کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق برطانیہ نے پاکستان پر ایران کے سلسلے میں تعاون کرنے کا دباؤ ڈالا

امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا وہ ایران پر اثر ور سوخ استعمال کر کے اس پر دپاؤ ڈال کر ایران تیل کے کنویں امریکہ کے حوالے کر دے لیاقت علی خان نے امریکہ کی یہ درخواست مسترد کر دی امریکہ نے کشمیر خفیہ معاہدہ ختم کر نے کی دھمکی دی لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کے تعاون کے بغیر آدھا کشمیر لے لیا ہے باقی کشمیر بھی پاکستان حاصل کرلے گا لیاقت علی خان نے ہوائی اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کر دیالیاقت علی خان کا یہ مطالبہ واشنگٹن پر بم بن کر گرا امریکہ کے حکمران پاکستان کے ہوائی اڈوں سے روس کو فتح کر نے کے جو خواب دیکھ دیکھ رہے تھے وہ چکنا چور ہو گئے اور امریکہ نے لیاقت علی خان کو قتل کر ا نے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا امریکہ چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہوتاکہ بین الا قوامی سازش دورکی جا سکیں امریکہ پاکستان میں کوئی باغی تلاش نہ کر سکا جیسا کہ وہ ایران،عراق میں کامیاب رہاتھا امریکی حکمرانوں نے ذمہ داری کابل کے امریکی سفارتخانے کو سونپی سفار تخانے نے پشتون لیڈروں سے رابطہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ اگر لیاقت علی خان کو قتل کروا دیا جائے تو امریکہ 1952تک پختونستان قائم کرا دے گا پشتون لیڈروں نے سید اکبر کو قتل کی ترغیب دی اور اسے موقع پر ہی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ سازش کا پتہ نہ چل سکے

امریکی حکومت کے لیاقت علی خان کے ساتھ اختلافات گراہم کی رپورٹ سے ظاہر ہوئے جو اس نے سپریم کورٹ میں پیش کی گراہم نے اچانک پاکستان کی مخالفت شروع کر دی تھی حالانکہ پہلے کبھی اس نے اشارہ نہیں دیا تھا لیاقت علی خان کے جسم سے خالی کارتوس امریکی ساختہ تھے جن کو اعلیٰ امریکی افسر استعمال کرتے ہیں اور وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں جب گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ان کے شوہر کے قتل کی خبر سنائی اور ا ن سے تعزیت کی تو اس سے چند منٹ پہلے امریکی سفیر بیگم رعنا صاحبہ کو یہ خبر سنا کر تعزیت کر چکے تھے یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ ملزم امریکہ ہے جس نے پہلے ہی مشرق وسطی میں ایسے جرم کیئے ہیں

16اکتوبر 1954کو بیگم رعنا لیاقت علی خان کا جاری کر دہ ایک بیان ہے جو انہوں نے ہالینڈ کے دارلحکومت بیگ سے جاری کیا تھا اس بیان میں انہوں نے چھ سوالات اٹھائے تھے پہلا سوال ایک ایسے موقع پر جب لیاقت علی خان ایک اہم پالیسی بیان دینے والے تھے اور مقبولیت کی انتہا پر تھے انہیں کیوں قتل کر دیا گیا؟دوسرا سوال قاتل کو ایسے موقع پر جب وہ بے بس کیا جا چکا تھا کیوں ہلاک کر دیا گیا؟تیسرا سوال قاتل پر گولی چلانے والے پولیس ا ہلکار کو سنا دینے کے بجائے ترقی کیوں دی گئی؟چوتھا سوال ملک میں چند اہم لیڈربا اثر افراد لیاقت علی خان کو اپنے راستے سے کیوں ہٹانا چاہتے تھے؟ اور چھٹا سوال ان تمام سوالات کے جوابات فراہم کیوں نہیں کئے جاتے؟ محترمہ رعنالیاقت علی خان کے اٹھائے یہ سوالات آج بھی اپنے جوابات کے منتظر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں