لڑکیوں کے تعلیمی وظائف حکومت کا مستحسن فیصلہ

ضیاء الرحمن ضیاء/بلوچستان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ایک نہایت قابل تحسین اعلان کیا ہے جس کے مطابق چھٹی سے بارہویں جماعت تک زیر تعلیم لڑکیوں کو ماہانہ وظائف دیے جائیں گے۔ پاکستان کے سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے مطابق بلوچستان میں چھٹی جماعت سے بارہویں تک 1لاکھ 10ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جن میں کلاسوں کی درجہ بندی کے مطابق وظائف دیے جائیں گے۔ جس کی ترتیب کچھ اس طرح ہو گی کہ چھٹی سے آٹھویں جماعت کی طالبات کو ماہانہ 500روپے، میٹرک کی طالبات کو 800اور انٹر میڈیٹ کی طالبات کو ماہانہ ایک ہزار روپے دیے جائیں گے۔ اس طرح وظائف کی مد میں سالانہ ایک ارب 20کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ اس منصوبے کا مقصد صوبے میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا ہے۔ سیکرٹری خزانہ کابینہ سے منظوری کے بعد یکم جنوری سے منصوبے پر عمل شروع ہونے کے لیے پرامید ہیں۔ اگر اس منصوبے پر عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے تو صوبے میں تعلیم کی شرح میں اضافے کا امکان واضح ہے۔ اگرچہ ماہانہ 500سے ایک ہزار روپے کی رقم بہت قلیل ہے لیکن نہ ہونے سے تو بہت بہتر ہے اور ہماری حکومتوں کی حالت بھی تو یہ ہے کہ ہر وقت خزانہ خالی ہونے کا رونا روتی رہتی ہیں، ٹیکسوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، آئے دن اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے لیکن خزانہ ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس لیے جتنا مل جائے اسے ہی غنیمت سمجھیں اور پھر بلوچستان کے لوگ انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں جن میں سے اکثریت کا کوئی مستقل روزگار بھی نہیں ہے ایسے حالات میں وہ بچوں کو کہاں سے تعلیم دلائیں؟ لڑکیاں تو چھوڑیں لڑکوں کے لیے بھی تعلیم حاصل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ وہاں لڑکیوں کے لیے تو اکثر تعلیم کا حصول نا ممکن ہوتا ہے۔ تعلیمی سہولیات کا انتہائی فقدان ہے۔ ہر علاقے میں سکول و کالج میسر نہیں ہیں ، تعلیمی ادارے بہت زیادہ فاصلے پر واقع ہیں جہاں تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسرنہیں، اگر ٹرانسپورٹ مل بھی جائے تو لوگوں کے پاس کرایہ دینے کے لیے رقم ناکافی ہے۔تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلباء پرائمری، مڈل یا جہاں تک باآسانی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں وہاں تک تو کر لیتے ہیں، مزید تعلیم کی راہ میں حائل بہت سی مشکلات کو دیکھتے ہوئے تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بہت قلت ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر افراد اس لیے بھی خواتین کو تعلیم نہیں دلاتے کہ وہ تعلیم کے حصول کے بعد بے پرد ہو جاتی ہیں اور معاشرے میں فحاشی کا باعث بنتی ہیں۔ حالانکہ تعلیم کبھی بھی یہ چیز نہیں سکھاتی، نصاب کی تمام کتابیں دیکھ لیں کہیں فحاشی کی تعلیم نہیں ہے اور نہ اس کی ترغیب دی گئی ہے اگرکبھی ایسا کرنے کی کوشش ہوئی بھی تو الحمدللہ ہمارے ماہرین تعلیم اور ذمہ دار افراد نے اسے روکا اور اب بھی روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے ہمارے ملک میں ابھی تک ایسی تعلیم نہیں آئی۔ جو بے پردگی وغیرہ پھیلتی ہے اس کی وجہ تعلیم نہیں تربیت ہے کہ ہم لوگ گھروں میں بچیوں کی تربیت درست طرح نہیں کرتے انہیں پردے کے فضائل سے روشناس نہیں کراتے اور الزام تعلیمی اداروں کو دیتے ہیں۔ اس لیے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی طور پر توجہ دینی چاہیے اور انہیں پورے اہتمام کے ساتھ والدین کی نگرانی میں تعلیمی اداروں میں بھیجنا چاہیے کیونکہ زیور تعلیم سے روشناس کرانے سے ہی معاشرے کی حالت بہتر ہو گی، شرح خواندگی بڑھے گی اور ملک ترقی کرے گا۔ بلوچستان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک قابل تعریف و تقلید اقدام کیا ہے جس کو آگے بڑھانا چاہیے اور ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس کو اپنا نا اور نافذ کرنا چاہیے۔ لڑکیوں کو تعلیمی وظائف کے علاوہ ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا بھی بندوبست کرنا چاہیے۔ ویسے تو لڑکوں کڑکیوں سب کے سکولوں اور کالجوں کو بسیں وغیرہ دینی چاہیئیں لیکن لڑکے تو جیسے تیسے پہنچ ہی جاتے ہیں مسئلہ لڑکیوں کے لیے ہوتا ہے کہ وہ گاڑیوں اور بسوں میں رش کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتیں اور نہ کھڑی ہو کر سفر کر سکتی ہیں اس لیے پہلے مرحلے پر لڑکیوں کے تعلیمی اداروں کو بسیں فراہم کریں تا کہ وہ باآسانی تعلیمی اداروں تک پہنچ سکیں۔ اس طرح والدین مطمئن ہوں گے اور ان کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ بخوشی لڑکیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے تعلیمی اداروں میں بھیجیں گے۔ جس سے معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد میں اضافہ ہو گا اور معاشرے کا بگاڑ ختم ہوتا جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے خصوصی اقدامات کرے اورتعلیم کے حصول کے لیے تمام تر سہولیات فراہم کرے۔ سالانہ بجٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم تعلیم کے اہم ترین شعبے کے لیے مختص کرنی چاہیے اور دور دراز دیہاتوں میں سکول قائم کرنے چاہئیں اور پرانے خستہ حال سکولوں کو بہتر کر کے وہاں تعلیم کا سلسلہ جاری کرنا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں