لوڈ شیڈنگ/محمد حسین

پاکستان کو ایٹمی طاقت کا حامل ہونے کی وجہ سے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا ہے اور اس کی فوج کو دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار کیا جاتا ہے۔لیکن ہمارا ملک ہے کہ بے شمار مسائل کا شکا ر ہے اور بجلی کا بحران ان میں سے سب سے بڑا مسئلہ ہے عوام دن رات ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں

پاکستان میں ایٹم بم بن سکتا ہے تو ایٹمی بجلی گھر کیوں نہیں بن سکتا وطن عزیز میں لوڈ شیڈنگ ایک مستقل مسئلہ بن گیا ہے پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا ہے بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے صنعتی ترقی بھی ناممکن ہوتی جا رہی ہے اور بہت سی صنعتیں بند ہوتی جا رہی ہیں

اور ملک میں سرمایہ کاری کا رجحان بھی کم ہوتا جارہا ہے جسے ملکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے مقررہ وقت پر تو لوڈ شیڈنگ کسی حد تک قابل قبول ہو سکتی ہے مگر بغیر وقت مقرر کیے لوڈشیڈنگ کی وجہ سے معمولات زندگی اور کاروباری زندگیاں شدید متاثر ہور ہی ہیں بجلی غائب ہونے کی وجہ سے واٹر سپلائی کا نظام بھی درہم برہم ہو جاتا ہے اور عوام پانی کی بوند بوند کو ترسنے لگے ہیں شہروں میں تو احتجاج اور میڈیا کے ڈر سے لوڈشیڈنگ کافی حد تک کم ہو تی ہے مگر ملک کے دور دراز دیہاتوں میں تو حالات بہت ہی بد تر ہیں

کیونکہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں عوام یہ نہیں سوچتے کہ حکومت ان کی دوبارہ بحالی کے لیے پیسہ اپنے پاس سے نہیں بلکہ عوام کے ہی جیب سے نکالے گی بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے طالب علموں کی تعلیم پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور امتحان کی تیاری میں مشکل پیش آتی ہے ،

مریضوں کا سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے عوام راتیں جاگ کر گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں شدید گرمی کے باعث بچے اور بوڑھے بے ہوش ہوجاتے ہیں اور کئی لوگ تو اللہ کو بھی پیارے ہوجاتے ہیں وولٹیج کم ہونے کے باعث الیکٹرانک اشیاء جل جاتی ہیں خاص کر رات کے وقت بجلی نہ ہونے کے باعث گرمی اور مچھروں کی بھرمار کی وجہ سے ملازمت پیشہ افراد کی زندگیاں شدید متاثر ہوتی ہیں بجلی بند ہونے سے عوام صرف آسائش سے محروم نہیں ہوتے ان کا کھانا پینا حتی کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے سب سے افسو س ناک پہلو یہ ہے ک

ہ عوام بجلی کی سہولت مفت میں نہیں طلب کرتے بلکہ ماہانہ بل ادا کرتے ہیں ہمارے حکمرانوں کی لالچ اور کرپشن کے باعث آج ساری قوم لوڈ شیڈنگ کے عذاب کو بھگت رہی ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے حکومت کی شاہ خرچیوں اور سیر وتفریح میں کوئی کمی نہیں ہو رہی لوڈشیڈنگ سے قوم تباہ ہوتی ہے تو ہو جائے مگر ان کے ذاتی مفاد کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ۔اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود حکمرانوں کے پاس لوڈشیڈنگ ختم یا کم کرنے کا کوئی پروگرام موجود نہیں ہے ۔حکمرانوں کو عوام سے شکایت ہے کہ عوام احتجاج کیوں کرتے ہیں

ذرا سوچئیے اس ملک میں کیا کیا نعمتیں ہیں جو حکومت نے عام آدمی کو فراہم کر رکھی ہیں ذرا سی لوڈ شیڈنگ سے گھبرانا غیور عوام کو شیوہ نہیں دیتا حکمرانوں نے ایسے ایسے عظیم منصوبے شروع کر رکھے ہیں کہ پھر اس لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان تک باقی نہیں رہے گا لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے بلاجواز ہیں ہمیں تو شکریہ کے بینرز اٹھا کر حکومت کے حق میں مظاہرے کرنے چاہیے ۔حکومت کو ہر گز نہ چھیڑا جائے کیونکہ وہ ضروری امور ہیں جن کو نمٹانے میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے ۔لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ تو اس کی سیاست کا خاتمہ ثابت ہو سکتا ہے

عوام کی تکالیف اور پر یشانیوں سے ان کو کیا ہو سکتا ہے ان کو تو تما م سہولتیں مفت اور وافر مقدار میں مل رہی ہیں ان کو پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہے انہیں لوڈ شیڈنگ سے استشنیٰ حاصل ہے عوام جلتی ہے تو جلتی سڑتی رہے اس سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں کہیں کیبل کے فالٹ بتائے جاتے ہیں تو کہیں گیس کا پریشر کم ہونے کارونا رویا جارہا ہے اس کے علاوہ بجلی کے صارفین کو ایک مسئلہ یہ بھی پیش ہے کہ ہر ماہ 35روپے ٹیلی ویژن فیس کے نام پر وصول کیے جارہے ہیں یہ سرا سر عوام پر ناجائز بوجھ اور زیادتی ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن فیس کا بجلی کے بل سے کیا تعلق ہے

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فیس کو یکسر ختم کر کے عوام پر سے اضافی بوجھ کو ہلکا کر دیا جائے اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ بلکہ کارنامہ ہے جو وزارت پانی و بجلی کی توجہ کا منتظر ہے وہ یہ کہ ہر صارف سے ایک یونٹ بجلی کی قیمت فالتو وصول کی جار ہی ہے فرض کیجئے ایک صارف کا بجلی کا پہلا بل آتا ہے جس میں یونٹ نمبر 01سے لے کر 100تک یونٹیں درج ہیں صارف اس بل میں درج شدہ یونٹس کا بل جمع کروا دیتا ہے اب جو دوسرا بل صارف کے پاس آتا ہے اس میں جو یونیٹیں درج ہیں وہ یونٹ نمبر100سے لے کر200تک درج ہوتی ہیں حالانکہ وہ 101سے شروع ہونی چاہیے اس میں آپ غور کریں کہ صارف نے یونٹ100کا بل پہلے بھی ادا کیا اور نئے آنے والے بل میں بھی اس یونٹ کی قیمت کو شامل کر دیا گیا ہے یہ تو ایک مثال آپ کے سامنے پیش کی ہے

آپ بجلی کا بل اٹھا کہ دیکھ لیجئے کہ آپ ہر ماہ ایک یونٹ کا اضافی بل ادا کرتے ہیں ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ان معروضات پر غور کریں اور فالتو وصول کی جانے والی رقم صارفین کو واپس کریں اور آئندہ بل بناتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ کوئی یونٹ دوبارہ بل میں شامل نہ ہو ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں