لوڈ شیڈنگ /ثا قب شانی

دفاعی استعداد کی بات کریں تو پاکستان کو ایٹمی قوت کا حامل ہونے کی بناء پر ناقابل تسخیر سمجھا جاتا ہے اورا س کی فوج کو دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار کیا جاتا ہے بہترین عسکری اور ایٹمی قوت کا حامل ہونے کی وجہ سے اپنے سے کئی گناء بڑے دشمن سے مسلسل خطرہ تھی اور اس ملک میں بسنے والے ذرخیز زہنوں اور مادروطن پر جان قربان کرنے کے جذبے سے اسے ناقابل تسخیر بنادیا مگر یہی مملکت خدا داد دیگر بے شمار مسائل کا شکار ہے بجلی کا بحران انہی میں سے ایک ہے جہاں جمہوری قوتیں مشرف کے خلاف متحد

ہوئیں وہیں بجلی کا بحران بھی مشرف کے زوال کے اسباب میں شامل ہے اس بحران کو عروج پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں نصیب ہوا جس کی کمان آصف علی زرداری کے ہاتھ میں تھی اور پھر بجلی کی ستائی ہوئی عوام نے زرداری پارٹی کو خفت میں لات مار کے مسلم لیگ کے شیروں کو چن کر اپنی امیدوں کو مر کز بنا لیا بذات خود اس بات کے دعویدار تھے کہ کچھ ماہ میں ملک کو اندھیروں سے پا ک کر دیں گے مگر اس حکومت کوآئے بھی قریبا تین برس ہونے کو آئے اور عالم یہ ہے کہ عوام رمضان مبارک کے مقدس مہینے میں سحرو افطار سمیت دن رات ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کاسامنا کررہے ہیں جبکہ رمضان المبارک سے قبل لندن میں مقیم علیل وزیر اعظم نے رمضان میں فورس لوڈشیڈنگ نہ کرنے کی ہدائیت کی تھی اس ہدائت کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو بچے ماں باپ کی کپڑے گندے نہ کرنا فلاں کے ساتھ نہ کھیلنا سکول سے سیدھے گھر آنا جیسی ہدایات کے ساتھ کرتے ہیں بات اگر صرف لوڈ شیڈنگ اور فورس لوڈشیڈنگ کی ہوتی تو لوگ برداشت بھی کر لیتے مگر زخم پر نمک بھی چھڑ کا جائے اور منہ سے سی بھی نہ نکلے ایسا ممکن نہیں چیخ و پکار فطری ہے جب عوام یومیہ بارہ سے سولہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کر ے اور اس اذیت ناک دور سے زندہ سلامت گزر جانے کا بل وہ بھی ہزاروں روپے ادا کرے توا س کے بپھرنے کا انتظار نہ کرے اور اس کی چیخ و پکار پر کان دھریں اپوزیشن کے موڈ سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کی خاموشی رمضان کے رخصت او ر وزیر اعظم کی آمد کی منتظر ہے رمضان کے بعد پانامہ لیکس پر مزاحمتی تحریک زور پکڑ سکتی ہے پانامہ لیکس پر عوام کے زہن میں شبہات تو جنم لے ہی چکے ہیں لوڈ شیڈنگ کا ٹرکا عوامی جذبات کے شعلوں کو ایدھن فراہم کرسکتا ہے تو بات کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے ہائیڈرل تھرمل کول ونڈ اور سولر انرجی کدھر ہے عوام الناس آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان کے ثمرات تلاش کر رہے ہیں اگر ایٹم بم بن سکتا ہے تو ایٹمی بجلی گھر کیوں نہیں کوئی وعدہ فا ہوا ہوتا تو عوام صبر بھی کر لیتیں ۔ڈیم اور بجلی راتوں رات نہیں بنتے اگر یہ پتہ تھا تو پچھلے ادوار میں کچھ کام کیا ہوتا اگر یہی سچ ہے تو آئندہ کے لیے آج کچھ کر لیا جائے مگر کچھ تو کیا جائے اب علاقائی صورتحال پر قلم واہ کرتے ہیں جو ملکی صورتحال سے قطعی مختلف نہیں گزشتہ دنوں عوام نے شکائت کی تو وفاقی وزیر داخلہ کے خکم پر کہ جن کا یہ حلقہ ہے آئیسکو حکام نے بھی دورہ کلر سیداں کر لیا مگر صرف اس بات کی تصدیق کر نے کے لیے کہ فورس لوڈشیڈنگ جاری رہے گی اور اسے ختم کرنا ہمارے بس میں نہیں بلکہ یہ نظام جام شورو اور اسلام سے کنٹرول کیا جاتا ہے بات تو سہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جام شورواور اسلام آباد اس پاکستان میں نہیں جو موجودہ حکومت کے زیر حکومت ہے اور عوام کو جو بجلی نہ آنے کے لمبے لمبے بل موصول ہورہے ہیں وہ کہاں سے آتے ہیں اور عوام کے خون پسینے کی کمائی کہاں جار ہی ہے ؟باقی باتیں اپنی جگہ اس ساری صورتحال میں ایک ہی ضرب المثل یاد آتی ہے ۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ راداھا ناچے گی ۔{jcomments on}

 

اپنا تبصرہ بھیجیں