لندن کی سڑکوں پر بدتہذیبی کا بدترین مظاہرہ

چند روز قبل لندن کی سڑکوں پر ایک نہایت افسوسناک واقعہ پیش آیا، واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب سڑک پر چل رہی تھیں کہچند اوباش لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور انہیں بری طرح سے ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ وہ ان پر آوازے کسنے لگے۔ ہراساں کرنے والوں میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد حضرات بھی پیش پیش تھے بلکہ وہ ان کے چہرے کے سامنے سپیکر اٹھا کر انہیں ان پر آوازے کس رہے تھے، چور چور کے نعرے لگا رہے تھے کچھ لوگ انہیں گالیاں بھی دے رہے تھے اور مختلف قسم کے الزامات جو عام طور پر پی ٹی آئی کے جلسوں میں لگائے جاتے ہیں انہیں دہرا رہے تھے۔ ان کے انداز سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اچانک مریم اورنگزیب کو سامنے دیکھ کر وہاں جمع نہیں ہوئے بلکہ وہ مکمل تیاری کے ساتھ وہاں پر آئے ہوئے تھے اور پلاننگ کے ساتھ انھوں نے اس قسم کی حرکات کیں کیونکہ ان کے پاس مائیک تھا اور باقاعدہ منظم طریقے سے وہ نعرے لگا رہے تھے۔ اب اچانک کہیں سے مائیک تو نہیں نکل آیا اور نہ ہی وہ ہر وقت مائیک ساتھ لے کر گھومتے ہوں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ انہیں تنگ اور ہراساں کرنے کے لئے مکمل تیاری اور پلاننگ کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ میرا اگرچہ مسلم لیگ نون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس کے باوجود مجھے مریم اورنگزیب کی حالت پر افسوس ہو رہا تھا۔ انہوں ن ے خود پر آوازے کسنے والوں کی طرف ذرا برابر توجہ نہ دی اور بالکل پر سکون طریقے سے چلتی ہوئی مارکیٹ کے اندر داخل ہوئیں آرام سے شاپنگ کی، کافی پی، اپنے موبائل میں مگن رہیں۔ شور مچانے والوں نے جب دیکھا کہ وہ ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دے رہیں تو انہیں اور زیادہ غصہ آیا اور انہوں نے انہیں اور بھی زیادہ برا بھلا کہنا شروع کر دیا لیکن انہوں نے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی اور بعد میں دیکھا گیا کہ وہ ایک خاتون کو کھڑی بہت پیار سے اور احترام کے ساتھ سمجھا رہی ہیں اور اس کے اعتراضات کے جوابات بھی دے رہی ہیں۔ ان کے اس انداز نے بہت سے سیاسی مخالفین کے دل موہ لئے تھے اور وہ بھی ان کا ساتھ دینے اور اس واقعے کی مذمت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جن لوگوں نے ایسی حرکت کی ان لوگوں کی عقل اور سوچ پر بہت زیادہ افسوس ہوا ہے یہ خود کو پڑھے لکھے اور مہذب سمجھتے ہیں کیونکہ یہ لندن میں رہتے ہیں اور لندن جیسے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ علاقے کے اندر رہتے ہوئے یہ خود کو کچھ زیادہ ہی پڑھے لکھے اور سمجھدار خیال کرتے ہیں لیکن ان کی حرکات دیکھیں تو ایسا شاید کوئی جاھل اور گوار بھی نہ کہ کسی راہ چلتی خاتون کو اس طرح سے ہراساں کریں۔ کس قدر شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ایسی بھونڈی حرکت کرنے والوں کے لیے اور ان لوگوں کے لئے بھی جنہوں نے یہ کام سکھایا۔یہ تحریک انصاف کے رہنما ہی ہیں جنہوں نے لوگوں کو جلسوں میں یہ کہا کہ یہ لندن میں آئیں گے تو انہیں یہ لوگ نہیں چھوڑیں گے اور یہ حرم شریف میں جائیں گے تو وہاں بھی لوگ نہیں چھوڑیں گے تو ان کے چاہنے والے بھی ایسے ہیں کہ وہ اپنی سوجھ بوجھ یا عقل فکر نہیں رکھتے، بس جو لیڈروں نے کہا وہی کر گزرتے ہیں چاہے اس کے لئے انہیں کتنا ہی خلاقی سطح سے گرنا پڑے یہ اس سے بھی باز نہیں آتے اور جو کچھ لیڈروں نے کہا جو کچھ انہوں نے سکھایا اسی کو کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کے لیڈروں نے انہیں سکھا دیا یہ چور ہیں، کرپٹ ہیں، نا اہل ہیں، تو یہ بھی فقط ان کی تقلید میں کہنے لگے خود میں عقل اور فکر نہیں نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر کتنے زیادہ لوگ ایسے ہیں جنہیں عمران خان خود چور، ڈاکو اور کرپٹ و نااہل قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود انہوں نے انہیں اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے۔پی ٹی آئی کے لوگوں سے بات کی جائے اور انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ خود جنہیں عمران خان نے چور ڈاکو کہا ہے وہ لوگ بھی تو پی ٹی آئی میں ہیں، وہ ان کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں پھر جب ان سے کچھ اور نہیں بنتی تو آخر میں یہی کہتے ہیں کہ باقی سب تو کا تو ہم کچھ نہیں کہتے لیکن عمران خان ایماندار ہے تو میں انہیں یہ کہتا ہوں کہ وہ کیسا ایماندار ہے جس نے اپنے سارے بے ایمان جمع کیے ہوئے ہیں۔ اگر اتنے ہی ایماندار ہوتے تو بے ایمان لوگوں کو ملک پر مسلط نہ کرتے اور انہیں ملک کو لوٹنے کا موقع نہ دیتے لیکن انہوں نے تمام بد دیانت اور کرپٹ لوگوں کو ملک کو لوٹنے کا خوب موقع دیا اور خود بھی ان کے ساتھ مل کر عیاشیاں کرتے رہے۔ عمران خان کے اپنے بھی کتنے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے لئے معیار الگ ہے اور دیگر لوگوں کے لئے معیار مختلف ہے لیکن ان کے خلاف بہت سے مقدمات تو ہیں، شاید ان لوگوں سے زیادہ سنگین مقدمات ہیں جنہیں اس سے کم جرم پر سزائیں ہو چکی ہیں لیکن عمران خان کے لیے کچھ زیادہ ہی نرمی برتی جاتی ہے۔بہرحال بات ہو رہی تھی اخلاقیات کی تو اگر اس طرح لوگوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رہا اور دیگر ممالک کے اندر پاکستان کے سیاستدانوں کے ساتھ بداخلاقی اور بدسلوکی ہوتی رہی تو یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ بڑھتا جائے گا کیونکہ ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے اگر آج مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے ہراساں کیا جارہا ہے تو کل مسلم لیگ نون کے کارکن پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو وہاں پر ہراساں کریں گے یوں یہ سلسلہ چل نکلے گا پھر کسی سیاسی جماعت کے رہنماکسی بھی ملک میں محفوظ نہیں رہے گا۔ پھر پاکستانی قوم پوری دنیا میں مذاق بن کر رہ جائے گی اور پاکستانی انتہائی بد اخلاق اور بد تہذیب قوم کے طور پر دنیا میں مشہور ہو جائیں گے۔ پھر ہماری دنیا میں کہیں بھی عزت نہیں ہوگی بلکہ ہمیں ایک لڑنے جھگڑنے والی وحشی اور جنگلی قوم کے طور پر دیکھا جائے گا۔ اس لیے اگر ہم دنیا میں عزت پانا چاہتے ہیں دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے ہم اپنی اخلاقیات کو بہتر کریں۔ لیڈروں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے اندر تھوڑا سا شعور پیدا کر لیں تا کہ ہم خود سے کچھ سوچیں اور سمجھیں۔ ایسا نہ ہو کہ لیڈر نے جو کہہ دیا وہ سو فیصد درست ہے، پاکستان کے سیاستدان تو مفاد پرستی میں مشہور ہیں اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کر گزرتے ہیں تو یہ بات حقیقت ہے کہ سارے رہنما اپنے مفادات کے لیے بیانات دیتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ عوام کو خود سوچنا چاہیے کہ ہم نے کس لیڈر کی بات کو ماننا ہے کس کی بات کو نہیں ماننا اور کونسی بات کو ماننا ہے اور کون سی بات کو نہیں ماننا، آنکھیں بند کر کے ہر بات پر من و عن یقین کر لینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ لہٰذالیڈروں کی اندھی تقلید کے بجائے خود سوچیں، خود سمجھیں اور اپنے اخلاقیات کو بہتر کرنے کی کوشش کریں دنیا میں اپنا ایک مقام پیدا کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں