175

لمپی سکن نے کسانوں کا بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے

تحریر چوھدری محمد اشفاق
کلرسیداں لمپی سکن نے کسانوں کا بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے
ان دنوں پورے پنجاب کو جانوروں کی بیماری لمپی سکن نے اپنے لپیٹ میں لے رکھا ہے ہر طرف سے جانوروں کے مرنے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں تحصیل کلرسیداں میں بھی یہ بیماری اپنے زوروں پر ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں کے حساب سے جانور مر چکے ہیں لمپی دکن نے تباہی مچا کے رکھ دی ہے کسانوں اور ایک عام زمیندار کا زریعہ معاش یہی جانور ہوتے ہیں جن کا دودھ وغیرہ فروخت کر کے وہ اپنے گھر کا نظام چلاتے ہیں جبکہ لمپی سکن کی وجہ سے ان کے یہ روز گار بھی ختم ہو چکے ہیں جب یہ بیماری شروع ہوئی تو لوگ مرنے والے جانوروں کو آبادی سے دور لے جا کر پھینک دیتے تھے لیکن اب جانوروں کے مرنے کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے لوگ ان کو آبادیوں کے قریب ہی پھینک دیتے ہیں جس وجہ سے بدبوؓ اور تعفن پھیلتا جا رہا ہے اب لوگوں کی گڑھے کھود کر دبانے کی ہمت جواب دے چکی ہے بعض جہگوں پر تو جانوروں سے بھرے گھر بلکل خالی ہو چکے ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے کہ چوکپنڈوڑی میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے گف کے رہائشی محمد عزیز کی اس وقت تک 6گائیں اس بیماری کا شکار ہو چکی ہیں جس شخص کی اتنی زیادہ تعداد میں جانور مر چکے ہیں اس کی ہمت ہے کہ وہ خود ابھی تک زندہ ہے اتنے بڑے نقصان سے تو مالک خود بھی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے ا ان کے علاوہ گف،سلجور کے گرد و نواح میں بے شمار جانور مر چکے ہیں سی طرح نوتھیہ گاؤں میں اس وقت تک 20کے لگ بھگ جانور مر چکے ہیں ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اپنی گائے کا دودھ فروخت کر کے گھر کا چولہا جلاتے تھے یو سی غزن آباد کے گاؤں میانہ موہڑہ میں جہاں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ہر گھر میں انسان کم اور جانور کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے وہاں پر بھی بہت زیادہ جانور اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں لونی کے مقام پر صغیر نامی ایک شخص کا بہت ہی قیمتی بیل بھی اس بیماری کے باعث مر گیا ہے اسی طرح کلرسیداں کے ہر گاؤں میں اس بیماری نے پنجے گاڑھ لیئے ہیں جدھر بھی جائیں ہر طرف سے غریبوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں کسان جو پہلے ہی معاشی بدحالی سے تباہ ہو چکے ہیں اس بیماری نے ان کا مزید بھرکس نکال کے رکھ دیا ہے مذکورہ بیماری کے حوالے سے جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق صوبہ خیبر پختوں خواہ اور بلوچستان کے علاقے اس بیماری سے محفوظ ہیں صوبہ سندھ میں اس بیماری نے اپنے حملے شروع کیئے تھے لیکن وہاں کی صوبائی حکومے نے اس بیماری کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے ہیں اور اس پر قابو پا لیا گیا ہے صوبہ پنجاب جس کی حکومت ترقی کے بہت زیادہ دعوے کر رہی ہے وہ اس بیماری کے خلاف کیوں اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے پورے پنجاب کو لمپی سکن نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے جبکہ پنجاب حکومت اس کے خلاف گھیرا تنگ کرنے میں غفلت و لاپرواہی سے کیوں کام لے رہی ہے محکمہ امور حیوانات کی اس بے حسی کی وجہ سے سینکڑوں جانور مر چکے ہیں حکومت نے متعلقہ محکمے کو کو جنجھوڑا کیوں نہیں ہے بس کسانوں کو ایک کورا جواب دے دیا جاتا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج ہی نہیں ہے جب سرکاری طور پر پوچھا جائے تو صرف ایک ہی ضواب ملتا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج ہی نہیں ہے لیکن اگر اسی ویٹرینری اسسٹنٹ کو پرائیویٹ طور پر گھر بلایا جائے تو وہ کئی قسم کی ادویات اور علاج بتا دیتے ہیں اور خوب قیمت بھی وصول کر لیتے ہیں کسا ن بیچارے دیسی ٹوٹکوں سے کام چلا تے ہوئے اس بیماری کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ان کو کامیابی نہیں مل رہی ہے بیماری بہت زیادہ زور پکڑ چکی ہے امور حیوانات والے تو فائدے میں چلے گے ہیں وہ جانور چیک کرنے اور دوائی دینے کی قیمت وصول کر رہے ہیں ہر یو سی میں اسسٹنٹ ویٹرینری تعینات ہیں وہ کسانوں سے رابطے کیوں نہیں کر رہے ہیں وقت طور پر مان لیا جائے کہ اس بیماری کی کوئی دوائی نہیں ہے لیکن امور حیوانات کے ڈاکٹرز اور ان کے اسسٹنٹ کم از کم کسانوں کو اس ھوالے سے آ گاہی تو دے سکتے ہیں اس پر تو کوئی خرچہ نہیں آتا ہے وہ گاؤں گاؤں جا کر مویشی پال حضرات کو ایک جہگہ پر اکٹھا کر کے احتیاطی تدابیر تو بتا سکتے ہیں بیماری کو کنٹرول کرنے کے طریقے ہی بتا دیتے کم ازکم ان کی کوئی کارکدگی تو بن جاتی کسان ان کی عزت دیتے لیکن ایسا کرنامحکمہ نے اپنی زمہ داری ہی نہ سمجھا کسانوں کو لمپی سکن کے حوالے کر دیا گیا ہے بیماری کی مرضی کہ وہ ان کے جانوروں کو مار دے یا چھوڑ دے مویشی پال افراد حکومت اور لائیو سٹاک والوں کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن کہیں سے بھی کوئی امید کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے سرکاری طور پر بیماری کو کنٹرول کرنے کیلیئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں بن سکی ہے اور اگر جانوروں کی ہلاکتوں کا یہی حال رہا تو دودھ اور گوشت کے صرف خواب ہی رہ جائیں گے حکومے کو چاہیئے کہ وہ سروے کا بندوبست کرے ایسے موشی پال حضرات جن کے جانور مر چکے ہیں ان کی اگر پوری قیمت نہ سہی کم از کم آدھی تو دینے کا اہتمام تو کرے یا ان کو مال مویشی فراہمی کے کسی منصوبے کا علان کرے ان کے نقصانات کا ازالہ کرے تا کہ وہ دوبارہ محنت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں اور سب سے بڑھ کر جس کی ضرورت وہ ہے بیماری کو کنٹرول کرنا ہے اس حوالے سے بھی فوری اقدامات کی اشد ضرورت ہے تا کہ مزید تباہی و بربادی سے بچا جا سکے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں