لمحہ فکریہ! لمحہ بہ لمحہ

کسی زمانے میں ایک بزرگ نے ایک سفیدکاغذدیوارپرچسپاں کردیا۔اس پر کالی روشنائی سے ایک سیاہ دھبہ بھی لگادیا۔کاغذکافی بڑاتھاجبکہ سیاہ نقطہ بہت چھوٹا تھا۔ بزرگ نے ہجوم کی طرف متوجہ ہوکرلوگوں سے پوچھاکہ آپ کوکیانظرآرہاہے؟ہرکوئی بولاکہ ہمیں سیاہ دھبہ نظرآرہاہے۔ان کے جواب میں بزرگ بولے کہ کمال ہے،آپ کوسیاہ دھبہ تونظرآگیالیکن اتنابڑاسفیدکاغذنظرنہ آیا۔آخرآپ سب کی آنکھوں کویہ سیاہ دھبہ ہی کیوں بھاتاہے؟لوگ بزرگ کی بات سن کربہت کچھ سوچنے پرمجبورہوگئے۔آج کے،مجھ جیسے گناہگارسمیت،انسانوں کایہی حال ہے کہ ہمیں کسی شخص کی ساری زندگی کی اچھائیاں نظر نہیں آتیں بلکہ ہرشریف آدمی کی اس کی سینکڑوں اچھائیوں کے درمیان برائی ہی نظرآتی ہے۔اس برائی کواسلام میں ”غیبت“کانام دیاگیاہے۔غیبت کامطلب ہے کہ کسی مسلمان بھائی کے حوالے سے کسی سچی بات کودوسروں تک اس طرح پہنچاناکہ مذکورہ شخص کی برائی بیان ہواورلوگ اس کے بارے میں بدگمان ہوجائیں۔وہ بات گرچہ سچ ہوتی ہے مگرغیبت کے حوالے سے فرمان پاک ﷺکامفہوم ہے کہ”کسی کی پیٹھ پیچھے کسی کی عزت کو داغ دارکرنے کے لئے اس کی کوئی بات کرناایساہے کہ جیسے کوئی اپنے مردہ بھائی کاگوشت کھا رہاہو۔“استغفراللہ۔بھلاکوئی شخص یہ کیسے پسندکرسکتاہے کہ وہ یہ منحوس عمل کرے۔عمل تو درکنار وہ تواس کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔مگرصدافسوس کہ یہ کام ہورہاہے۔ذراآگے چلیں تومعلوم ہوتاہے کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے انسان کے بارے میں جھوٹ کا سہارا لے کراسے بدنام کرتاہے تواسے”بہتان“کہاجاتاہے۔جوغیبت سے بھی بڑاجرم اورگناہ ہے۔اگرہم سب اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکناشروع کردیں تویہ تمام مسائل اورگناہ ختم کئے جاسکتے ہیں۔مگرگردن نیچے کرکے صرف گریبانوں میں جھانک لینے سے نہ توہم حقیقت تک پہنچ پائیں گے اورنہ ہی حقیقت ہم تک۔خیالات کے تقدس کوتقویت دے کریہ کام ممکن ہے۔ ورنہ خیالات پامال کرنے سے تقدس کے تقاضے پامال ہوجایاکرتے ہیں جس میں تباہی ہی تباہی ہے۔ہمیں بدگمانی سے نجات حاصل کرناہوگی۔کسی انسان کی سو خامیوں کو نظرانداز کرکے اس کی ایک خوبی کومعیاربناکررشتوں کوتقویت دیناہوگی۔ورنہ یہ رشتے سرکنا شروع کردیتے ہیں۔یہ توہم جانتے ہی ہیں کہ کسی بلندوبالاپہاڑی تودے کا سرکناکیانتائج مرتب کیاکرتاہے۔اس کے بعدنہ توشاہدجمیل منہاس بچ سکے گااورنہ ہی وہ، نہ ہی یہ سب اورنہ ہی وہ سارے۔دروبام کوسندربنانے اورسپنوں کوتعبیرعطاء کرنے کیلئے خیالات کی پاکیزگی کی اشدضرورت ہے۔ایک گھرسے خاندان اورخاندان سے برادری اور پھر برادری سے شہربنتے بنتے پوراملک یاتوتمام ترخوشحالیوں اورخوبصورتیوں کے ساتھ منور ہو جایا کرتاہے یاپھرصفحہئ ہستی سے غائب۔اگرکسی کے آباؤاجدادکی زندگیاں پیازکے ساتھ روٹی کانوالہ کھاکرگزری ہوں اوراولادکواللہ تبارک وتعالٰی کی ذات دولت وثروت سے نواز دے تویہ اولادکیلئے ایک بہت بڑاامتحان ثابت ہوتاہے نہ کہ خوشی کامقام۔کیونکہ آخرت میں اللہ کی ذات انسان سے اتناہی حساب
لے گی جتنااس انسان کودنیامیں دنیاوی آسائشات اور سہولیات سے نوازاگیا۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات مشکل سے گزر بسرکرنے والے گھرانے کواللہ کی ذات اگرخوشحال کرکے کسی قابل بنادے تووہ اپنے ماضی کو بھول جاتے ہیں۔اوریہی میرے مالک کی طرف سے امتحان کاپہلاپرچہ ہوتا ہے۔میرے اباجی کہاکرتے تھے کہ بیٹا!کسی انسان کوکبھی مت آزمانا۔اوراگرآزماناپڑہی جائے تواسے اس وقت ملوجب وہ بھوک کی کیفیت میں ہو۔یعنی کھانے کاوقت ہو چکا ہو اوراسے کھانانہ مل رہاہو۔ان ساعتوں میں اگراس کی گفتگومعمول کے مطابق ہے یعنی صبروالی ہے تووہ واقعی ایک باضمیراورحقیقت پسندانسان ہے۔اوراگرباربارروٹی روٹی کی رٹ لگاکراپنااوراپنے لالچی پیٹ کاتعارف کروارہاہوتویاتووہ کم ظرف آدمی ہے یاواقعی بھوک وننگ کا ستایا ہوا آدمی ہے۔لہٰذاوہ قابل رحم ہے،اسے فوراً ً کھاناپیش کردیاجائے۔دوسری طرف اگرکوئی انسان مالی لحاظ سے بہترہے یعنی اس پراللہ کاکرم ہے تواسے صبروتحمل کامظاہرہ کرنا چاہیے۔ بشرطیکہ اسے کوئی بیماری نہ ہو۔مثال کے طورپرشوگرکامریض زیادہ دیربھوک برداشت نہیں کرسکتا۔لہٰذابروقت کھانااس کی مجبوری ہوتی ہے اوروہ ہم میں سے کوئی بھی ہوسکتاہے۔لیکن ایک بات طے ہے کہ بڑے ظرف کے لوگ جب کبھی کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں توانتہائی تحمل مزاج نظرآتے ہیں۔یعنی وہ اللہ کے رزق کوضائع کرنے کی بجائے تکریم کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔یہ وہ افرادہوتے ہیں جواللہ کی نعمتوں کی قدرجانتے ہیں اوراس ذات کاشکراداکرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔میراایک دوست ہے،وہ جب بھی کھاناکھاتاہے توآخرمیں روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے ضرورچن چن کرکھاتاہے۔دوسری خوبی اس میں یہ ہے کہ وہ میزصاف کرکے اٹھتاہے چاہے وہ کسی ہوٹل میں ہی کیوں نہ کھاناکھائے۔مگرآفرین ہے اس انسان پرجس کاکہناہے کہ رزق جب روٹھ جائے توپھرواپس پلٹ کرنہیں آتا۔یہ سب باتیں بظاہرچھوٹی اورمعمولی ہوتی ہیں مگردراصل یہ افعال انتہائی اعلٰی مقام کے حامل ہوتے ہیں۔ان کی پاسداری کرنے والے کامقام ہمالیہ سے بلند ہوا کرتا ہے اور اس سلسلے میں ہار جانے والے کا مرتبہ ایک تنکے سے زیادہ نہیں۔ ایک مزاح کی بات یاد آئی توسوچاکہ کرتا چلوں۔ یہ بات ظرف کے معنٰی کو مزید واضح کر دے گی۔ ہمارے ایک جاننے والے حضرت جب بھی کھاناکھاتے ہیں توانہیں نوالہ پھنسا کر ہی سکون آتاہے۔ایک دفعہ ہم سب کھاناکھارہے تھے توان کے حلق میں ایک عددبوٹی پھنس گئی۔ان کے حلق سے عجیب وغریب قسم کی آوازیں آناشروع ہوگئیں۔مجبورًاایک دوست کوان کی گردن پرمکامارناپڑا۔مزے کی بات یہ ہے کہ مکاکھانے کے بعدوہ ہمیشہ مکامارنے والے کاشکریہ اداکرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ایک دن میں نے ان سے کہاکہ اگرکوئی آپ کوایک مکے کی بجائے دوچاریازیادہ مکے ماردیتاتوکیاآپ اس کے اورزیادہ مشکورہوتے؟کہنے لگے کہ اس ایک مکے کے بعدہفتوں میرے حلق میں نوالہ نہیں پھنستا۔ اس کے جواب میں میں نے کہاکہ جناب آپ پھر احتیاطاً پندرہ سے بیس مکے کھا لیاکریں تاکہ سات آٹھ ماہ آسانی سے گزرجایاکریں۔یہ سن کروہ بھائی برہم ہوگئے۔مجھے موضوع بدل کرانہیں طوطے میناکی کہانی سنانی پڑی۔لیکن یادرہے کہ یہ وہ خامی ہے جو خالصتاً کسی انسان کی ذات سے متعلق ہے۔وہ چاہے تواسے ختم کرسکتاہے۔اب مزاح سے ذرا ہٹ کرایک دفعہ پھرحقائق کی طرف واپس آتے ہیں۔آپ نے،میں نے اورہم سب نے یہ دیکھاہوگاکہ جس انسان کاتعارف برسوں نہیں ہوسکتا،اس انسان کاتعارف بس ایک سفرکے دوران ہوجایاکرتاہے۔یہ تعارف یاتوان دوستوں کوہمیشہ کیلئے ایک دوسرے کاہمسفربنادیتاہے یاپھرہمیشہ کیلئے ان کی راہیں جداکردیتاہے۔اس
کے علاوہ چند روپوں کا لین دین ایک دوسرے کے تعارف کیلئے کافی ثابت ہوجایاکرتاہے۔یہ وہ خوبیاں یا خامیاں ہوتی ہیں جوڈگریوں سے نہیں بلکہ والدین کی تربیت اورخاندانی حسب ونسب کے مرہون منت ہوتی ہیں۔ڈگریاں توشیطان کے پاس بھی بہت زیادہ تھیں مگروہ روزِقیامت تک بلکہ اس کے بعدبھی دربدررہے گا۔اس ساری گفتگوکے بعدایک نظردوبارہ کالم کے آغازوالی بات پرڈالتے ہیں تومعلوم ہوگاکہ اوپربیان کردہ تمام حقائق یہ بتاتے ہیں کہ یہ تمام باتیں بھی ویسی ہی ہیں جیسے بزرگوں نے فرمایاتھاکہ بہت بڑے کاغذ پر موجود کالا دھبہ توسب کونظرآگیامگراس سے کئی گنابڑاکاغذنظروں سے اوجھل رہا۔کیونکہ ہمارے اندر کا انسان دوسروں کی خامیوں کامتلاشی نظرآتاہے نہ کہ خوبیوں کا۔اللہ سے دعاہے کہ اللہ ہمارے اندرکے انسان کوایک عام آدمی کی بجائے واقعی ایک انسان بنادے۔ آمین۔ بحیثیت انسان ہم سب کویہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے دل کے سفیدکاغذپرکوئی سیاہ دھبہ نہ لگنے پائے۔بات صرف یہ ہے کہ کسی انسان کی ہزارخامیوں کونظراندازکرکے اس کی ایک خوبی کی وجہ سے اس سے پیارضرورکریں۔مگریہ خامیاں ختم کرنے کیلئے تگ ودوبھی ضروری ہے۔ ورنہ انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں کو زنگ لگا بیٹھے گا اور اس کے ہاتھ میں موجود سفید کاغذ سارے کا سارا سیاہ ہو جائے گا۔ اور پھر اس سیاہ کاغذکے درمیان ایک سفیددھبہ نظرآنے لگے گا۔اور،خدانخواستہ،اگروہ بھی نہ رہاتو؟؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں