لفظوں کی مالا /شاہد جمیل منہاس

شاہد جمیل منہاس
الفاظ الف سے لے کر ے تک کے حروف تہجی سے مل کر بنتے ہیں۔ ان حروف سے بننے والے الفاظ یا لفظ اپنے اندر خوبصورتی بھی پال سکتا ہے اور بد صورتی بھی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ ایک ادیب اپنی لفظوں سے خوشیاں اور غم دونوں معاشرے میں بکھیر سکتا ہے۔ الفاظ کے استعمال سے ان کے معانی تک تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد ایک ہی جملہ اگر چند مختلف افراد بولیں تو ان کے اس فعل کے نتائج بھی مختلف ہوں گے۔ مثال کے طور پر اگر میں کسی کو کہوں کہ آپ نماز پڑھا کریں تو ہو سکتا ہے میری بات اس پر اثر نہ کرے۔ مگر یہی بات جب کوئی مجھ سے بہتر انداز میں کرے گا تو ہزاروں افراد نمازی بن جائیں گے اور وہ اپنی اور راہ راست پر لانے والے فرد کی آخرت کو سنوارنے کا سبب بن جائیں گے۔ حروف کی لڑی کو پرونے کا نام جملہ بازی یا مضمون نگاری یا شاعری بھی ہو سکتا ہے۔ جو لوگ اچھے انداز میں بات کرتے ہیں وہ باتیں تو وہی کر رہے ہوتے ہیں کہ جو عام لوگ بھی کرتے ہیں مگر ان کے انداز، اخلاص، اخلاق اور لہجے اور اثر انداز ہونے والے لہجے کی وجہ سے لوگوں کے دل میں گر کر جاتے ہیں۔ لہٰذا الفاظ کے چناؤ اور ان کے استعمال میں احتیاط انتہائی ضروری ہے ورنہ قومیں جنگ و جدل میں مبتلا ہو سکتیں ہیں۔ الفاظ کے چناؤ اور استعمال سے دوست ایک دوسرے کے دشمن اور دشمن ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔

الفاظ کے غلط استعمال اور چناؤ کی وجہ سے میاں بیوی میں اختلافات ان کی علیحدگی کا سبب تک بن جاتا ہے۔ الفاظ کے غلط استعمال کی وجہ سے بھائی آپس میں دشمن بن جاتے ہیں اور اس طرح جب کسی ملک کا بادشاہ یا وزیر یا صدر الفاظ کا غلط استعمال کرتا ہے تو دو ممالک میں جنگ چھڑ سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کو یہ جنگ منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اور یاد رہے کہ انہی حروف کی لڑی سے دعا کے الفاظ بنتے ہیں اور انہی حروف سے بدعا بھی دی جاتی ہے۔ مگر یاد رہے کہ دعا دینے سے دعائیں ملتی ہیں اور بدعائیں دینے سے ہو سکتا ہے کہ جس کو آپ بدعا دے رہے ہیں وہ بدلے میں آپ کو دعا ہی دے مگر یہ بھی یاد رہے کہ خدا کی ذات ہم سب کے اعمال کو دیکھ رہی ہے لہٰذا دعا دینے والے کو ضرور اس نیک کام کا صلہ ملتا ہے مگر بدعا دینے والے کی سوچ تک خدا کی ذات قابض ہوتی ہے۔ لہٰذا بدعائیں کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ماسوائے کسی مظلوم کی آہ کے اور اللہ نہ کرے کہ کسی کو مظلوم کی آہ لگے۔ اگر کوئی مظلوم اپنے زبان سے آہ نکالتا ہے تو وہ جان کر ایسا نہیں کر سکتا بلکہ وہ اچانک نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی زبان سے بیان ہو جاتی ہے جسے خدا کی ذات بھی رد نہیں کرتی۔
لہٰذا خدا را لوگوں کی آہوں سے بچیں۔ اب ان آہوں سے بچا کیسے جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتی جائے۔ الفاظ کے استعمال میں بے احتیاطی کرنے والا شخص بظاہر دو ٹانگوں والا انسان ہی نظر آ رہا ہوتا ہے مگر در اصل وہ دو ٹانگوں والا جانور اور بعض اوقات دو ٹانگوں والا درندہ بن جایا کرتا ہے۔ اللہ ایسا وقت کسی پر نہ لائے کہ جب خدا کی مخلوق کسی کو دیکھ کر خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہو جائے۔ یہ لفظوں کی ترتیب اور ان کا استعمال اور ہر ان کا چناؤ یہ سب مل کر کسی فرد کو ظالم بنا دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ زبان کی بجائے ہاتھوں سے تباہی و بربادی کی سی صورت حال سے دو چار ہو جاتا ہے۔ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے افراد غیر محفوظ ہو جایا کرتے ہیں۔

حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ یعنی اسلام کے دائرے سے خارج ہو جانے کے ذمہ دار بھی آغاز میں الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ انتہا کا تعلق ابتدا سے ہوتا ہے۔ اگر ابتدا درست ہو تو انتہا انتہائی خوبصورت ہوتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہم گندم کا بیج بو کر مکئی کا پودا حاصل کر لیں۔ جہاں اولاد کی تربیت نیک والدین کے حصے میں آتی ہے وہاں وہ اولاد ابتدا اور آغاز کے درست ہونے کی وجہ سے انتہا درجے کے خوبصورت اختتام کی طرف گامزن رہتی ہے یعنی اولاد کی تربیت میں والدین جو الفاظ چنتے ہیں وہ آخر میں والدین کی کامیابی تک ان کے ساتھ ہیں۔ اگر ہم کسی سے پیار کرتے ہیں تو ہمیں اسے الفاظ کی صورت میں بیان کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم اپنی ماں کے چہرے کی طرف اس نیت سے دیکھتے ہیں کہ ہماری ماں نے ہماری تربیت میں اپنی ساری زندگی قربان کر دی اور یہ کہ ہماری مائیں انتہائی کھٹن مراحل سے گزر کر سکون والی زندگی کے قریب جب آئیں تو ان کی اپنی زندگی ختم ہونے کو ہے۔ تو اللہ کا فرمان ہے کہ جس شخص نے پیار بھری نظر سے ایک دفعہ اپنے والدین کی طرف دیکھا تو ایک مقبول حج کا ثواب اسے ملتا ہے۔ اس بات میں زرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
ایسی سوچ کا کوئی بدل نہیں مگر یہ بھی ضروری ہے کہ اس سوچ کو اپنے والدین کے سامنے الفاظ کی صورت میں بیان کیا جائے تاکہ انہیں بھی حوصلہ ملے کہ ان کی اولاد کو ان کی محنتوں اور کاوشوں پر فخر ہے اور یہ کہ ان کے دل میں ان کی قدر موجود ہے۔ پیار و محبت کے جذبات کو بیان کرنے کا ذریعہ بھی الفاظ ہی بنتے ہیں مگر لوگ تو ایک دوسرے پر شک کرتے کرتے مر جاتے اور روز قیامت ہی حقائق معلوم ہو پاتے۔ در اصل الفاظ ہی کی اہمیت ہے۔ الفاظ بہتی ندی کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ جب تک چلتے رہتے ہیں تو زندگی رواں رہتی ہے اور جب یہ الفاظ بیان بازی کے احاطے سے نکل جاتے ہیں تو زندگی رک جاتی ہے۔ لفظوں کی روشنی سے سجنے والی زندگی در اصل محققین کا تعارف ہوا کرتی ہے۔ چلیں آئیں جو افراد ماضی میں جاہلیت کی وجہ سے اہمیت کھو چکے تو انہیں لفظوں کے چناؤ اور استعمال سے دلکش بنا کر امر کر دیں{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں