لطیف جذبوں کی شاعرہ تمثیلہ لطیف

لطیف جذبوں کی شاعرہ تمثیلہ لطیف جو کہ پانچ اکتوبر1985 کو تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئیں ابتدائی تعلیم اپنے نواحی گاؤں سے ہی حاصل کی اب تک ان کے تین شعری مجموعہ کلام منظر پر آ چکے ہیں جن میں کوئی ہمسفر ہے، دشت میں دیپ جلے، اور تیسرا اشکِ تمنا شامل ہیں ایک نثر کی کتاب ممتازِ سُخن کے نام سے بھی شائع ہو چکی ہے۔

پنڈی پوسٹ کے ساتھ ایک نشست کے دوران انھوں نے بتایا کہ ادبی ذوق زمانہ طالبعلمی سے ہوا ہم اکثر اپنے ارد گرد کے ماحول رشتے رویوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں

مجھے حساسیت نے رویوں نے اور میرے ادبی لگا ؤ نے اس سب سے بڑھ کر اللہ کی خاص مہربانی سے مجھے لکھنے ہنر آیا۔ شاعری کی طرف رحجان کے اسباب حساسیت میری شاعری سے لگاؤرویے رشتے ہر احساس کا متاثر کر جانا سوچتے رہنا ادبی قدیم شاعروں کی شاعری پڑھنا اور اس بات پر گم رہنا کہ کاش میں بھی لکھ سکوں وہ احساسات جو میں اردگرد دیکھتی ہوں۔

شعر کہنے کے لیے لوازمات سے زیادہ میرے نزدیک حساس ہونا زیادہ ضروری ہے۔ ادبی مطالعہ ادبی لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کا آپ پر اس کرم کا ہونا ہر کوئی لکھنے کا ہنر نہیں رکھتا اور یہ ہنر رب کی عطا ہی ہوتا ہے باقی وزن اوزان بحر وقت اور مطالعے کے ساتھ ساتھ معلومات میں اضافہ کرتی ہیں۔

بڑا شاعر بننے کے لیے قدیم شعرا نے جن حالات کا سامنا کیا وہ تو دل دہلانے کے لیے کافی ہے۔ مگر آج کے اس زمانے میں ادبی دنیا میں بھی گروپ بندیاں منافق رویے ظاہری آسائشیں ہر اس شاعر کو بڑا کہلواتی ہیں جو ہر تقریب میں جا رہا جس کے پاس کسی بھی تقریب میں جانے کے لیے وقت کے علاوہ کوئی مالی کمی نہیں۔آج کے موجودہ شاعر ان نشیب و فراز سے کہاں دوچار ہیں مختصر اتنا کہ آج کا بڑا شاعر دولت آسائش سے ہی بڑا ہے۔ میرے نزدیک قلمکار کو ہر موضوعات پر لکھنا چاہیے

میں اگر صنفِ نازک ہوں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں محبوب کی جدائی اور اسکی بے وفائی کا ہی رونا روتی رہوں میں حالات سے متاثر ہوتی ہوں اور میری کوشش یہ ہی ہوتی ہے کہ میں محبوب کے موضوعات چھوڑ کر معاشرے کے موضوعات کو قلمبند کروں۔ لوگ آجکل دکھاوے اور ظاہری تاثرات کو اہمیت دیتے ہیں جو میرے نزدیک بے معانی ہے میں نہیں مانتی کہ مشاعروں میں شرکت خواتین کے لیے ضروری فعل ہے کوئی میری نظر میں ان کا مشاعروں میں خوش رہنا خوش فہمیوں کے مترادف ہے

باقی سب اپنی سوچ کے پیروکار ہیں جیسے جس کو جو بہتر لگتا ہے وہ کرتا ہے۔جب سے دنیا وجود میں آئی ہے مردوں نے عورتوں پر حکمرانی ہی کی ہے معاشرہ کوئی بھی رہا ہو مرد نے ہمیشہ اپنی انا کے بل بوتے پر خواتین کو کم تر مانا آج اس اکیسویں صدی میں جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں پھر بھی کہیں نہ کہیں خواتین اس معاشرے کے مردوں کی دقیانوسی سوچ اور زمانہ جاہلیت کے رویوں کا بھی شکار ہو رہی ہیں تو بتائیں کہ خواتین ہر شعبے میں رہ کر دشواریوں کا سامنا ہی تو کرتی آ رہی ہے

اور کر بھی رہی ہے۔ ہمارا ملک شروع سے سازشوں کی نظر رہا ہے ادبی اداروں میں بھی یہی رواج ہے کہ فن اور ٹیلنٹ کی اپنی کوئی اہمیت نہیں جس کے ساتھ کوئی بڑا نام نہیں اسکی کوئی سنوائی نہیں بھلا وہ کتنا ہی اچھا لکھاری کیوں نہ ہو۔جبکہ ادبی اداروں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ لکھاری جو اچھا لکھتا ہے مگر مالی طور پر
کمزور ہے اس کو خود ادارے والے سپورٹ کریں اسکے فن پر باقی یہاں سب ہی اپنے اپنے مفادات میں گم بے حسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں

ان سے کیا توقعات رکھیں۔ جی میں نے نثر میں بھی لکھا شروعات افسانہ نگاری سے ہوئی پھر اس سفر میں شوقِ جستجو بڑھا تو میں نے ادبی شخصیات پر مضامین لکھنے کا آغاز کیا 2020 میں نثری کتاب ممتازِ سُخن ور کے نام سے منظر پر آئی۔ عورت کے لیے کوئی بھی سفر آسان نہیں ہوتا اس لیے میں نے اپنی ادبی مصروفیات کو اپنی گھریلو مصروفیت پر حاوی نہیں کیا کبھی میرے لیے میرا گھر میری پہلی ترجیح ہے ادبی سلسلے فارغ اوقات پر رکھ دیتی ہوں جو میرے نزدیک بہتر ہے۔ یہاں تک آنے میں بے شمار مشکلات کا سامنا کیا جیسے کہ میرا تعلق ایک گاؤں سے ہے جہاں آجتک دور دور تک کوئی قلمکار نہیں لوگ دقیانوسی سوچ کے مالک ہیں میری حوصلہ افزائی کا تو کہیں کوئی سوال ہی نہیں میں تو تسکینِ دل کے لیے ہمیشہ قلم کو اپنا بہترین دوست بنائے رکھا دشواریاں جتنی بھی رہی انہیں اشعار میں ڈھال دیا اس لیے یہاں ہر دشواری کا اظہار کرنا نامناسب رہے گا۔

قارئین کے لیے اپنا تازہ کلام
خبر اپنی نہیں ہم کو تمھاری خاک رکھتے ہم
جنوں میں کس لئے ہوتے اگر ادراک رکھتے ہم
اگر معلوم ہوتا تم مثالِ برق آؤ گے
بناتے آشیاں اپنا خس و خاشاک رکھتے ہم
ہمیں معلوم ہے مغرور و سرکش ہو ہی جاتا تُو
بزرگی کی ترے سر پر اگر پوشاک رکھتے ہم
زیارت کا پہاڑی سلسلہ اتنا کٹھن تھا گر
تو اپنے پاس آیت کے لئے اشراک رکھتے ہم
یہ اپنی بدنصیبی ہے بچا پائے نہ سرمایہ
سخن املاک تھا اپنا یہی املاک رکھتے ہم
جہان و مال و دولت کیا اگر افلاک بھی ملتے
قسم ہے ٹھوکرِ پا میں سبھی افلاک رکھتے ہم
اگر ہوتی اجازت تو نبی کو سجدہ ہم کرتے
حقیقت ہے یہ تمثیلہ یہی اشراک ہم رکھتے
شاعرہ تمثیلہ لطیف

اپنا تبصرہ بھیجیں