لاہور کا استاد منگو اور تبدیلی

آصف خورشید‘ سر صوبہ شاہ
استاد منگو لاہور میں رہتا تھا اور ایک کوچوان کے طو ر پر کا م کرتا تھا ۔ ایک دن استا د منگو کو اپنے تانگے میں بیٹھی سواریوں سے معلوم ہوا کہ نیا آئین انڈیا ایکٹ 1935، انقلابی تبدیلیاں لائے گا ۔اور یکم اپریل 1935سے لا گو ہو گا ۔ وہ یہ خبر سن کر بہت خوش ہو گیا ۔ وہ یہ اندازہ لگانے لگاکہ نیا قانون ہندوستان کے باشندوں کی آزادی اور بنیادی حقوق کو یقینی بنائے گا ۔یہ قانون تمام مشکلات اور مسائل حل کر دے گا۔غریب امیر کا فرق ختم ہو جائے گا۔جو کچھ امیر کھاتے ہیں غریب بھی کھائیں گے ۔ملک میں خوشحالی آجائے گی ۔غربت کا خاتمہ ہو جائے گا۔اس کے علاوہ اس نے دوسری سواریوں سے بھی بہت کچھ سن رکھا تھا ۔استاد منگو یہ اندازہ لگا چکا تھا کہ ملک کے معاشرتی اور سیاسی حالا ت میں واضح تبدیلی لگائے گا۔اب وہ یکم اپریل کا بے چینی سے انتظار کرنے لگا ۔ہر دن نئی سوچیں اور امیدیں لاتا۔وہ نئے قانون کے بارے میں جتنا زیادہ سوچتا اتنا ہی زیادہ بے چین ہو جاتا ۔اس نے اپنے تانگے کو بھی سجا لیا ۔نئے قانون کو منانے کے لیے اپنے گھوڑے کے سر پر نئی کلغی بھی رکھی تھی ۔یکم اپریل کو وہ ان تبدیلیوں کے بارے میں اتنا بے چین تھا کہ اس نے اپنا تانگہ صبح سویرے تیا ر کیا ۔اور باہر نکل آیا ۔اس نے انار کلی کا چکر لگایا ۔مال روڈ اور کچہری کی طرف گیا لیکن کوئی تبدیلی محسوس نہ کی ۔وہ بہت مایوس دکھائی دے رہا تھا ۔حتیٰ کہ جب اس نے کینٹ میں بھی کوئی تبدیلی نہ محسوس کی توبہت مایوس ہوا۔اس نے اپنے گھوڑے کو روک لیا۔اور کچھ دیر آرام کرنے کے لیے تانگے کہ پچھلی سیٹ پر لیٹ گیا ۔بد قسمتی سے ایک گورا سپاہی ادھر آگیا ۔استاد منگو نے اسے پہچان لیاکیونکہ اس نے اس سے پہلے بھی استاد منگو کی بے عزتی کی تھی ۔استا د منگو اس کی کھو پڑی توڑنا چاہتا تھا۔یہ اتفاقیہ ملا قات لڑائی میں تبدیل ہو گئی ۔استاد منگو نے یہ سوچتے ہوئے اس کو اپنی چھڑی سے مارا کہ تبدیلی چکی ہے ۔اب گورا زیادہ دیر حکمران نہیں رہے گا ۔لیکن جب اس کو ایسا کرنے پر سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا ۔وہی پرانا کلچر اپنایا گیا ۔وہ بہت مایوس ہوا تب جا کر اس کی غلط فہمی دور ہو ئی ۔ کہ نیا آئین کوئی تبدیلی نہیں لایا۔(سعادت حسن منٹو)
الیکشن 2018سے پہلے جب تبدیلی کی بات کی جاتی تو ہر شخص کے ذہن میں خیال آتا کہ اب تبدیلی آنے والی ہے ۔ملک کی ہر شے تبدیل ہو جائے گی ۔ملک معاشی طاقت بن کر ابھرے گا ۔تھانہ کلچر اور پٹواریوں کا خاتمہ ہو جائے گا ۔انویسٹر کھینچے چلے آئیں گے ۔پٹرول 40تک آجائے گا۔تعلیم اور میڈیکل فری ہو جائے گا۔ملکی معیشت مضبوط ہو جائے گی ۔لوگ بیرو ن ملک سے نو کریاں تلاش کرنے آئیں گے ۔ قتل و غارت اور دہشتگردی نام کی کوئی چیز نہیں رہے گی ۔لوڈ شیڈنگ اس قدر ختم ہو جائے گی کہ اضافی بجلی دوسرے مما لک کو دی جائے گی ۔ ہر شخص کو پینے کا صاف پانی ملے گا ۔ سب سے بڑی بات تین کروڑنوکریاں نوجوانوں کو دی جائے گی ۔جس سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی ۔لوگوں نے بالخصوص نوجوانوں نے اس تبدیلی کا پرتپاک استقبال کیا ۔مگر تبدیلی کے 8ماہ گزرنے کے باوجود حال ویسے کا ویسا ہی ہے۔ نہ پٹرول کی قیمت کم ہوئی نہ معیشت مضبوط ہوئی ۔نہ ڈالر قابو ہوا۔نہ تین کروڑ نوکریاں ملی ۔نہ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی نہ تھانہ کلچر بدلا۔نہ انویسٹر آئے ۔نہ کشکول ٹوٹا۔بلکہ صرف مانگنے کے انداز بدل گئے ۔نہ شاہانہ ٹھاٹ بدلانہ ہسپتالوں کی حالت بدلی نہ تعلمی ایمرجنسی کام آئی ۔نہ وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی بنا۔تبدیلی کا خواہش منداستا دمنگواسی بے چینی کی کیفیت میں ۔
تیرے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا(غالب)

اپنا تبصرہ بھیجیں