لاک ڈاون کے مثبت اثرات

ضیاءالرحمن ضیا،پنڈی پوسٹ/اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ۔ انسان اس کے سامنے بے بس ہیں اور مریض نہایت تشویش ناک حالت میں بے یارومددگار پڑے ہیں۔ پوری دنیا میں جہاں اس نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے وہیں اس وائرس نے انسانیت کو بہت کچھ سکھا بھی دیا ہے ۔ جیسے اس نے یہ درس دیا ہے کہ انسان ایک مشین نہیں ہے اگر یہ کچھ وقت اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ بھی گزار ے تو دنیا کا نظام نہیں رکے گا۔ اسی طرح اس نے مالولیاتی اور فضائی آلودگی کو کم کرنے کے فوائد اور طریقہ بھی سکھا دیا ہے ۔ اس وقت پوری دنیا فضائی آلودگی کا شکار ہے ۔ جس کی وجہ سے کئی قسم کے مسائل اور بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
انسان نے اپنی زندگی کو پر آسائش بنانے کے لیے مختلف صنعتوں کی بنیاد رکھی اور رفتہ رفتہ صنعتوں اور مشینوں کا ایک جال پوری دنیا میں بچھ گیا۔ ان صنعتوںنے انسانوں کو بہت سی سہولیات تو فراہم کر دیں لیکن قدرتی ماحول کو تباہ کر دیا۔ کارخانوں ااور گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویںنے فضا کو نہایت آلودہ کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ سے اوزون میں سوراخ ہو رہے ہیں یہ مختلف گیسوںکی ایک تہہ ہے جو سورج کی خطرناک شعاو¿ں کو زمین تک نہیں پہنچنے دیتی ، یہ انسانوں کے لیے ایک قدرتی ڈھال ہے ۔ جسے انسانوں نے خود ہی خطرناک گیسوں کے ذریعے تباہ کر دیا ہے ۔ اب سورج کی خطرناک شعاعیں براہ راست زمین تک پہنچ رہی ہیںجو انسانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں ۔ یہ شعاعیں مختلف بیماریوں خاص طور پر جِلدی بیماریوں کا باعث بن رہی ہیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی سے طرح طرح کی بیماریاں وسیع پیمانے پر پھیل رہی ہیں۔ جن میں پھیپھڑوں کی بیماریاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے 80فیصد سے زائد انسان آلودہ فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔
دنیا کے تقریباً تمام بڑے شہر شدید فضائی آلودگی کی لپیٹ میں ہیں ۔ جو جتنا بڑا صنعتی مرکز ہے اتنا ہی زیادہ آلودہ بھی ہے اور وہاں کے لوگ اسی قدر سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والی بے تحاشا زہریلی گیسیں اور کشادہ شاہراہوں پر دوڑتی لاکھوں گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں ان شہروں کی فضا کو نہایت مضر صحت بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس فضائی آلودگی سے صرف انسان ہی نہیں دیگر مخلوقات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ چنانچہ پودے اور درخت اس آلودگی کا براہ راست نشانہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان فیکٹریوں کا مائع شکل میں نکلنے والا مادہ صاف و شفاف پانی کو تباہ کر رہا ہے جس سے پانی کی مخلوق جیسے مچھلیاں وغیرہ متاثر ہو رہی ہیں۔
کورونا وائرس کے نتیجے میں جب تقریبا پوری دنیا میں لاک ڈاو¿ن کی وجہ سے صنعتیں بندپڑی ہیں تویہ مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ دنیا میں صنعتی چھٹیوں کی وجہ سے فضائی آلودگی میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر زہریلی گیسوں کی کمی کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں پڑنے والا شگاف بھی خود بخود بھرنے لگا ہے جو کہ ایک نہایت مثبت تبدیلی ہے ۔ موسمیات و فلکیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین صنعتی چھٹیوں کے دنوں میں فضا کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور یہ رپورٹیں دے رہے ہیں کہ جن شہروں میں لاک ڈاو¿ن ہوا ہے
وہاں فضائی آلودگی میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔ بڑے بڑے صنعتی شہر جو آلودگی سے اٹے پڑے تھے اب وہاں فضا خوشگوار ہو رہی ہے
۔ جن شہروں سے پرندے معدوم ہو چکے تھے اب وہاں پرندے بھی دکھائی دے رہے ہیں ۔ اب چڑیوں نے بھی ان شہروں کا رخ کر لیا ہے اور صبح صبح ان کے چہچہے سنائی دینے لگے ہیں۔
ماہرین جہاں فضائی آلودگی میں کمی کی نوید سنا رہے وہیں اس خطرے سے بھی آگاہ کر رہے ہیں کہ جیسے ہی لاک ڈاو¿ن ختم ہو گا اور کارخانوں ، فیکٹریوں میں کام شروع ہو گا تو فضا دوبارہ آلودہ ہونے لگے گی۔ پھر وہی مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے جو لاک ڈاو¿ن سے پہلے تھے ۔ اس لاک ڈاو¿ن سے یہ بات تو واضح ہوئی ہے کہ زمین کی فضا اور اوزون کی تہہ کو اپنی اصلی صورت میں دوبارہ بحال کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کچھ وقت کے لیے صنعتوں کو مکمل طور پر بند کیا جائے بلکہ لاک ڈاو¿ن کیا جائے اور فیکٹریوں کی بندش کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی نقل و حمل پر بھی پابندی عائد کی جائے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر ایک معاہدہ کرنا ہو گا کہ ہر سال کچھ دن یا ہر چند سال بعد کچھ مہینے لاک ڈاو¿ن کیا جائے ۔ ابھی تو کئی عشروں کے بعد بلکہ شاید صنعتی ترقی کے بعد پہلی مرتبہ اتنے وسیع پیمانے پر لاک ڈاو¿ن ہوا ہے توفقط دواڑھائی ماہ کے اندر فضا میں اتنی خوشگوار تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں تو جب ہر چند سال بعد دو تین ماہ کا لاک ڈاو¿ن ہو گا تو اس سے کتنا فائدہ ہو گا۔ مگر یہ لاک ڈاو¿ن تبھی کامیاب ہو سکتا ہے جب عالمی سطح پر ایک معاہدے کے تحت یہ کار خیر انجام پائے گا۔ اگر کوئی ایک ملک بھی اس پر متفق نہ ہوا تو یہ کام نہیں ہو سکے گا اس لیے کہ وہ ملک جب دیگر ممالک کی صنعتیں بند ہوئی دیکھے گا تودوسروں سے آگے نکلنے کے لالچ میں زیادہ صنعتی پیداوار کی کوشش کرے گاجبکہ دیگر ممالک دوسروں سے پیچھے رہ جانے کے خوف سے لاک ڈاو¿ن نہیں کر پائیں گے ۔ اس لیے اس لاک ڈاو¿ن کے لیے عالمی سطح پر ایک معاہدے کے تحت تمام ممالک کو متفق کرنا ضروری ہے ۔ اس کار خیر کا داعی پاکستان بھی بن سکتا ہے لہٰذا کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد ہماری حکومت کو اس معاملہ پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا

اپنا تبصرہ بھیجیں