لانگ مارچ‘احتجاج دھرنا اور مطالبات

پروفیسر محمد حسین/پاکستان سمیت دنیا بھر کی تاریخ‘سیاسی جدوجہد‘ انسانی حقوق‘عوامی اورجمہوری اصولوں کی بالادستی کیلئے مظاہروں‘دھرنوں‘احتجاجوں اور لانگ مارچ کے واقعات سے بھری پڑی ہے کبھی عوامی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں تو کبھی آواز خلق کو زبردستی دبادیا گیا حالیہ ملکی و عالمی ادوار کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ میں سیاہ فام شہریوں پر تشدد کے خلاف ملک گیر بلیک لائیوز میٹر نامی پر امن مظاہروں نے 2020کے امریکی انتخابی نتائج بدل کر رکھ دئیے ہمارے ملک پاکستان میں سابق وزیراعظم ججوں کی بحالی کیلئے ابھی لانگ مارچ کیلئے نکلے ہی تھے کہ راستے میں ہی ججوں کو بحال ہونے کی خوشخبری دے دی گئی عمران خان نے نہ صرف لانگ مارچ کیا بلکہ پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین ایک سو چھبیس دنوں کا احتجاجی دھرنے کا ریکارڈ قائم کر دیاحکومت تو نہ گرا سکے مگر چار سال بعد اقتدار حاصل کر لیا مولانا فضل الرحمن 2019میں حکومت گرانے اسلام آباد آئے اور خالی ہاتھ لوٹ گئے تاہم مدارس کے لاٹھی بردار وردی طلباء کیلئے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے اپوزیشن حکومت گرانے کیلئے احتجاجی جلسوں اور بلند بانگ دعوؤں میں ناکامی کے بعد اب لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دے چکی ہے مگر عوام یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہے کہ بند کمرہ اجلاسوں اور عوامی جلسوں سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بے تخت کرنے کی مفاداتی و جذباتی حکمت عملی کا جواب کون دے گا؟نیز فوج مخالفت نفرت انگیز بیانیہ تراشنے والے ارب پتی اپوزیشن لیڈر کے انقلابی دعوؤں کا حساب کون دے گا؟کہا جاتا ہے کہ جمہوریت میں عوام کے مفاد کا تحفظ کی ضامن حکومت نہیں ہوتی بلکہ اپوزیشن ہوتی ہے مگر پاکستانی جمہوریت میں ایسا ہوتا کبھی نظر نہیں آیاپی ڈی ایم کے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو لڑانے اور ڈھیر کرنے کے خیالی پلاؤ نے اپوزیشن کی ساکھ اور عوامی اعتماد کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے حکومت نے اگر عام آدمی کوبنیادی ضروریات کی فراہمی اور مسائل کے حل میں فعالیت نہیں دکھائی بلکہ صرف بیان بازی تک اپنے آپ کو محدودرکھا تو اپوزیشن بھی عوام کے حقوق کی پاسداری میں مکمل ناکام رہی ہے تاریخ پر تاریخ دینے اور ہر محاذ پر ناکامی کے بعد اب افراتفری اور پریشانی میں مارچ میں لانگ مارچ کی تاریخ دینا اور گیارہ پارٹی مفادات کے باعث اندرونی اختلافات پر پردہ ڈالنے کی بے سود کوشش ہے واضح ہو چکا ہے کہ استعفوں اور عوام کو اعتماد دلانے کا بنیادی ٹارگٹ سینیٹ انتخابات کو رکوانااور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنا تھا مگر باہمی لڑائی اور اقتدار کی جنگ نے جگ ہنسائی کے ساتھ ساتھ اصولوں کی سیاست کی ناموس کو بھی پامال کرکے رکھ دیا ہے اپوزیشن کی سیاسی حکمت عملی کامیاب نہ ہونے سے حکومت مضبوط ہوئی ہے ناکامی کی بڑی وجہ اپوزیشن کی قیادت کی کئی ایک کمزوریاں ہیں اپوزیشن اتحاد کی حالیہ اجلاس میں حکومت گرانے کیلئے کسی بڑے نکتے پر متفق نہ ہونے کے باوجود بالآخر مزید خزمت سے بچنے کا واحد راستہ لانگ مارچ کے اعلان کی صورت میں نکالا گیا تاریخ گواہ ہے کہ لانگ مارچ سے حکومتیں نہ کمزور ہوئی ہیں اور نہ ہی کبھی ختم ہوئی ہیں حکومت نے بجٹ 2020-21میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشن میں سالانہ اضافہ نہیں دیا تھا ہوشربا مہنگائی کے باعث سرکاری ملازمین اور پنشنرز سخت پریشانی میں مبتلا ہیں اس سلسلے میں وفاقی سرکاری ملازمین دس فروری 2021 کو اسلام آباد آئے اور احتجاج کرنا شروع کر دیا اس میں انہوں نے حکومت سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیاوفاقی سرکاری ملازمین اور حکومتی نمائندوں کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے اسی دوران سرکاری ملازمین پر لاٹھی چارج کیا گیااور آنسو گیس کی بد ترین شیلنگ کی گئی گویا پانی پت کی جنگ کا سماں دکھائی دینے لگا ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دہشت گردوں نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد پر حملہ کر دیا ہو حالانکہ سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں سالانہ اضافے کا مطالبہ کرنے آئے تھے اور وہ پرامن تھے ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرناحکومت کو زیبا نہ تھا بعد ازاں سرکاری ملازمین اور حکومتی نمائندوں کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہوئے جو کامیابی کی صورت میں اختتام پذیر ہوئے اور حکومت کی طرف سے وفاقی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پچیس فی صد اضافہ کا اعلان کر دیا گیا اور وفاقی سرکاری ملازمین نے احتجاج اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن بڑے ہی افسوس کامقام ہے کہ مذاکرات کرنے والے حکومتی نمائندوں کو سرکاری پنشنرز یاد نہ آئے کہ سرکاری ملازمین کے ساتھ ہی پنشنرز کی پنشن میں بھی اضافے کا اعلان کر دیا جاتا ایک پنشنرکا معصومانہ سوال یہ ہے کہ کیا پنشن میں اضافے کیلئے پنشنروں کو بھی ڈی چوک دھرنا دینا پڑے گا؟پنشنرز کے جوڑوں میں اتنا دم نہیں اور نہ ہی جیب میں اتنا دھن ہے کہ وہ ڈی چوک آکر احتجاج کریں اور اپنے مطالبات پیش کریں پنشنرز ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے لیکن ہاں پنشنرز کے پاس ایسا ہتھیار موجود ہے جس کے ذریعے وہ گھر بیٹھے ہی اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں وہ ہتھیار ان کی دعائیں ہیں اگر پھر بھی کام نہ بنے تو بد دعاؤں کا آپشن تو موجود ہی ہے اگر کسی کو پنشنرز کی بد حالی پر شک ہے تو مہینے کی پہلی تاریخ کو بنکوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں دیکھ سکتے ہیں اللہ سب کیلئے آسانیاں پیدا کرئے (امین)سب سے بڑے غدار وہ لوگ ہیں جنہوں نے پنشنرز کو چھوڑ کر صرف اپنا مفاد حاصل کیا حکومت تو جیسی ہے عوام اچھی طرح جانتے ہیں البتہ حکومتی نمائندوں کیلئے یہ بات نہایت شرمناک وافسوس ناک ہے وفاقی سرکاری ملازمین کو اپنا مفاد حاصل کرنے پر اتنا خیال نہ آیا کہ کل ہم نے بھی ریٹائر ہو کر پنشن لینی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں