لانگ مارچ،پرویز اشرف مصطفیٰ نواز کیلئے بڑی آزمائش

پاکستان میں حکومت مخالف سیاسی تحریکوں و حکومت مخالف اتحاد بنتے و ٹوٹنے کی طویل فہرست موجود ہے ارض پاک کے قیام کے بعد ملک کا اقتدار چند خاندانوں و سیاسی شخصیات کے گرد گھومتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کمزور اقتصادی صورت حال و ناقص حکمت علمی کے سبب ملک کمزور ہوتا گیا اور چند خاندان و شخصیات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے ملک میں پہلی بار اقتدار ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو ملا۔پاکستان میں اقتدار و امور ریاست کو متعدد بار چلانے والی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن و پاکستان پیپلز پارٹی حکومت مخالف تحریکوں کی نمائندگی کر رہی ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لانگ مارچ کو اسلام آباد تک لانے کے لئے سندھ کے اضلاع میں محو سفر ہیں پر سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی جیالوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے میرا آرٹیکل جب آپ کے ہاتھوں میں ہو گا تو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے جیالوں ورکروں کے ہمراہ پنجاب میں داخل ہو چکے ہونگے پنجاب میں لانگ مارچ کو کامیاب کروانا پنجاب پیپلز پارٹی پنجاب کے لئے انتہائی اہم ہے لانگ مارچ کے اسلام آباد داخلے سے قبل دو پوائنٹس گوجر خان اور اسلام آباد ٹی چوک انتہائی اہم ہے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین وچیئرمین آصف علی زرداری و بلاول بھٹو گوجر خان متعدد پہلوؤں سے انتہائی اہم ہے ہیں سابق وزیراعظم پنجاب میں پارٹی کے اہم عہدیدار پنجاب سے منتخب واحد ممبر قومی اسمبلی اور سابق قومی الیکشن میں دو قومی و ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کے لئے پارٹی ٹکٹ بھی دیا گوجر خان کے ایک خاندان کوچیئرمین اسلام آباد میں پروقار انداز میں داخل ہونے کے خواہشمند ہیں اسی سبب انکی نظریں راجہ پرویز اشرف کے ساتھ ساتھ مصطفی نواز کھوکھر پر بھی مرکوز ہیں دونوں کا شمار پارٹی کی اعلی قیادتوں میں ہوتا ہے دونوں قد آور سیاسی شخصیات پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کو کامیاب کروانے میں و جیالوں ورکروں کو گھروں سے نکال تک اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو پائیں گے کیا؟ مصطفی نواز کھوکھر اسلام آباد و لانگ مارچ کے داخلی گیٹ ٹی چوک انکے آبائی قومی اسمبلی کے حلقے میں شامل ہے مصطفی نواز اپنے خاندان کے دو اہم سربراہوں کے بغیر پہلی بار بڑی سیاسی پروگرام کو ترتیب دے رہے ہیں ایک طرف انھوں نے لانگ مارچ میں شریک شرکاء و جیالوں کی میزبانی کرنی ہے تو دوسری طرف انھیں اسلام آباد میں جیالوں کی دائمی شرکت کو بھی یقینی بنانا ہے حلقہ انتخاب میں مسلسل شکست کے باوجود مصطفی نواز کھوکھر کو کراچی کی سیٹ سے سینٹ کا ممبر بنوا کر انکے کندھوں پر جو بھاری ذمہ داری بھی ڈال دی اب اسے ادا کرنے کا وقت ہے راجہ پرویزاشرف و مصطفی نواز کھوکھر دونوں قد آور سیاسی شخصیات کیلئے لانگ مارچ آزمائش سے کم ثابت نہیں ہو گا ملکی سیاست جلسے دھرنوں لا نگ مارچ پر گہری نظر رکھنے والی سیاسی پنڈتوں کی نظریں بھی ان دونوں شخصیات کی جانب مرکوز ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے لونگ مارچ کو کامیاب و فیصلہ کن بنانے میں ان کا کردار اہمیت رکھتا ہے اسلام آباد میں جیالوں کی صورت میں تازہ کمک کو پہنچانا ضروری ہے آسلام آباد میں ملکی و عالمی میڈیا کے نمائندے بھی پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی کوریج کے لئے موجود ہونگے جس سے پیپلز پارٹی کے مستقبل کا بھی تعین ہو پائے گا سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف پنجاب میں بلاول بھٹو زرداری کے شاندار استقبال و لانگ مارچ میں جیالوں و پارٹی ورکروں کی شرکت کو بھر پور بنانے کے لئے پنجاب بھرمیں طوفانی دورے کرتے دکھائی دے رہے ہیں مگر انکے برادر اصغر راجہ جاوید اشرف و فرزند راجہ خرم پرویز اشرف حلقے میں لانگ مارچ کے لئے جیالوں کو متحرک کس حد تک کر پاتے ہیں اسکا ادراک بلاول بھٹو کے گوجر خان میں استقبال و اسکے بعد مندرہ ٹول پلازہ پر سے گزرنے والی ان مقامی جیالوں کی گاڑیوں سے ہو گا جو لانگ مارچ کا حصہ بنے ساتھ جائیں گی کیونکہ اسلام آباد پنڈال پر ملکی و عالمی میڈیا کی توجہ رہے گی اسلام آباد سے پارٹی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے والے راجہ پرویز اشرف کے بھائی راجہ عمران اشرف پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لانگ مارچ کی آخری منزل ڈی چوک میں اسلام آباد اپنے حلقہ انتخاب سے ورکروں و جیالوں کو پنڈال تک لانے کی انکا اپنے حلقہ انتخاب میں کتنا افعال کردار ہے اس کا ادراک انکے لانگ مارچ میں شرکت کرنے والے جیالوں کی تعداد سے ہو جائے گاچیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا لانگ مارچ حکومت کی تبدیلی کا سبب بن سکے گا یا نہیں یہ اس کا انحصار اسلام آباد میں جیالوں کی تعداد کو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا اسلام آباد و اقتدار میں تبدیلی لانگ مارچ کے سبب ممکن ہے یا نہیں ابھی کچھ کہنا مناسب نہیں مگر ایک بات کلیر ہے کہ پیپلز پارٹی کا جاری لانگ مارچ اس کے مستقبل کا فیصلہ ضرور کرے گا اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان بھی لانگ مارچ کے نام پر اپنی قوت کا اظہار کر چکے ہیں مگر وہ اپنی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچا کر ہی واپس ناکام گئے اسلام آباد سے اب چیئرمین بلاول بھٹو کیا اورانکی ٹیم لانگ مارچ سے مطلوبہ نتائج حاصل کر پائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں