قوم لوط کے پیروکاروں کو کیسے لگا دی جائے

عبدالستارنیازی/قارئین کرام ! معاشرے کی بے حسی ، بے راہ روی، معاشرتی برائیوں ، خلاف قانون،خلاف شرع ہوتے جرائم کو دیکھ دیکھ کر معاشرہ دن بدن مزید بگڑتا جا رہاہے، قوم لوط کے پیروکارہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن جب سے میڈیا میں کیس رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں تب سے روز بروز کیس بڑھ رہے ہیں ان کا ازالہ کیسے ممکن ہوگا ؟ یہ سوال ہر شخص کے ذہن میں گردش کرتاہے، جگہ جگہ یہ مطالبے کرتے ہوئے عوام پائی جاتی ہے کہ ان کیسز کے ملزمان ، مجرمان کو سرعام پھانسی دی جائے ، وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ایسے لوگوں کو نامرد بنانے کیلئے اقدامات کریں گے اور اس حوالے سے اپوزیشن بھی ہمارا ساتھ دے، جبکہ سرعام پھانسی کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت آئیں بائیں شائیں کرتی پائی جاتی ہے جس پر پوری قوم عجیب مخمصے اور پریشانی کا شکار ہے، نہ تو ایسی قانون سازی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ایسی سزائیں تجویز کی جاسکتی ہیں جس سے ان جرائم کو روکا جائے ، مگر کیوں ؟ اس جواب کیلئے عوام کو شاید سالہا سال انتظار کرنا پڑے ، FATF بل کے حوالے سے حکومت نے اپوزیشن اور اپوزیشن نے حکومت پر سنگین الزامات عائد کئے مگر کیا اسلامی نظام قانون کے تحت سزائیں تجویز نہیں ہوسکتیں ؟ کیا یہ ملک” صرف“ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلائے گا ؟ کیا یہاں پر اسلامی سزاﺅں پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا؟ پیپلز پارٹی کے ایک رہنما نے گزشتہ دنوں ایک لڑکی کو نوکری کا جھانسہ دے کر زیادتی کا نشانہ بنایا، موٹروے پر خاتون کو بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ، گجرپورہ میں عورت کو خاوند کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، گوجرخان میں رواں ہفتے کے دوران دو واقعات پیش آئے ، معذور بچے کو درندہ صفت شخص نے زیادتی کا نشانہ بنایا ، ایک اور ملزم نے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا، مقدمات درج ہوگئے ، کیس عدالت میں جائے گا ، مدعی سست گواہ چست کے مصداق چار تاریخوں کے بعد معززین علاقہ نے راضی نامہ کرادینا ہے ، بچے اور ملزم نے اسی معاشرے میں رہناہے اور اسی معاشرے نے دوبارہ انہیں یہیں رہنے کا حق دینا ہے ، مگر کیا جو بے عزتی مقدمہ درج ہوکر ،کچہریوں کے چکر لگا لگا کر حاصل کی ہوتی ہے اس کا نعم البدل ہوسکتاہے ؟بہت سارے ایسے کیس بھی ہوتے ہیں جو محض دشمنی مٹانے ، خفت مٹانے کیلئے درج کرائے جاتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں ایک خاتون نے اپنے ہی ”باس“ پر الزام لگایا اور بعد ازاں ویڈیو میں رو رو کر کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ، کیا اس طرح کی غلطیاں اس معاشرے کے بگاڑ کا سبب نہیں بنتیں ؟ ہم نے دوسروں کی عزت کو کھلونا سمجھ رکھا ہے اور خود بہت بڑے عزت دار بنتے ہیں ،اس سارے معاملے میں پولیس کا کردار اس وجہ سے خراب ہے کیونکہ اصلاحات کا نعرہ لگاکر آنے والے اپنے مشن کو بھول کر کسی اور جانب چل دیئے ہیں ، یہ بھولی عوام تبدیلی ان حکمرانوں سے چاہتی ہے جن کو تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں ، آخر کب تک ؟ کب اس ملک کی 22کروڑ عوام کیلئے قانون سازی ہوگی؟ کب عوام کی ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندے پارلیمنٹ میں اپنے مفادات کی بجائے عوام کے مفادات کا تحفظ کریں گے ؟ یہ بہت سارے سوالات ہیں جن کا جواب میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی زبانی دینا چاہوں گا ، اس مرد مجاہد نے 90کی دہائی میں آواز بلند کی تھی کہ یہ نظام ملک کو کبھی تبدیلی نہیں دے سکتا اور تب سے آج تک وہ یہی کہتا آ رہا ہے ، آج اس کا کہا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہورہاہے ، جواب یہی ہے جب تک یہ کرپٹ سسٹم رائج ہے نہ کوئی آپ کے مفادات کا تحفظ کرے گا ، نہ کوئی عوام کیلئے قانون سازی کرے گا ، نہ کوئی اس ملک کیساتھ مخلص ہوکر چلے گا ، آج نہیں تو کل ، ہر شخص کہے گا ”ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے “، اپنا، اپنی فیملی کا اپنے بچوں کا اور اس معاشرے میں رہنے والوں کا خیال رکھیں کیونکہ اپنوں کیلئے مخلص صرف آپ ہیں اور کوئی نہیں۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں