قومی حمیت نکال دو

راشدی خاندان(پیر پگارا خاندان) نے ہمیشہ آزادی کے لیے قربانیاں پیش کیں ہیں انھوں نے اپنے مریدین کو ہمیشہ آزادی کا درس دیا اور ان کو حر کے نام سے موسوم کیا حر کا معنی آزاد کے ہیں یعنی ان کے مریدین آزادی پسند لوگ ہیں اور آزاد رہنا چاہتے ہیں کسی کی غلامی قبول نہیں کر سکتے پہلی مرتبہ حُر تحریک 1830 میں پیر صبغت اللہ شاہ اول کے دور میں سکھوں اور انگریزوں کے خلاف شروع ہوئی سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل کی بھی انہوں نے سکھوں کے خلاف مدد کی اور یہ تحریک 1921کے بعد اپنے عروج پر پہنچ گئی بیسویں صدی میں آزادی کی جنگ میں صرف تین حریت پسند رہنماؤں کا شہرہ ہوا جنھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں انگریزوں کا جینا حرام کردیا تھا بنگال میں سوبھاش چندر بوش پنجاب میں بھگت سنگھ اور سندھ سے پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی پیر پاگارہ سورہیہ بادشاہ ہیں پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی راشدی 23صفر 1327ھ بمطابق 1909ء کو درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پاگارہ پیر جوگوٹھ ضلع خیر پور سندھ میں سید مردان شاہ راشدی کے گھر پیدا ہوئے اپنے والد پیر صاحب پاگارہ پنجم کے 9 نومبر 1921ء کو وصال کے بعد سید صبغت اللہ فقط بارہ سال کی عمر میں مسند نشین ہو کر پیر صاحب پاگارہ ششم کی حیثیت سے متعارف ہوئے جذبہ حریت گھٹی میں پایا اسی لیے بارہ سال کی چھوٹی سی عمر میں تحریک حریت کی نہ صرف قیادت کی بلکہ انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے پیر پاگارہ کے نظریات و خیالات اور جذبات سے خائف ہو کر انگریز حکومت نے 1930ء میں پیر پاگارہ کو 8 سال سزا سنا کرہندوستان کی مختلف جیلوں میں قید رکھا پیر پاگارہ 1936ء میں رہا ہو کر آئے تو انہوں نے نئے جوش و ولولے سے تحریک میں جان ڈال دی اور انگریزوں کے خلاف سر بکف ہو کر آزادی کی جنگ شروع کر دی انگریزوں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر حُروں کو پسپا کرنے کی کوشش کی مگر حُر ٹس سے مس نہ ہوئے آخر کار انگریز سرکار نے بغاوت کرنے اور جنگ کرنے کے الزام میں 1940ء میں پیر پاگارہ کو دوبارہ قید کیا اور پورے سندھ میں حُر تحریک کے ہزاروں حُر سپاہیوں کو شہید کر دیادوران قید انگریز حکومت نے اپنے کئی ایجنٹوں کو پیر صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ حکومت سے معافی مانگ لیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے اور اس طرح وہ پھانسی سے بچ سکتے ہیں لیکن پیر صاحب نے ان سب کو ایک ہی جواب دیا اور بلاشبہ آزادی کا پر ستار یہی جواب دے سکتا تھا آپ نے فرمایا شہادت ہمارا تاج ہے اسے آگے بڑھ کر پہن لینا ہمارے لیے عبادت ہے ہم نے صرف آزادی کو چاہا ہے ظالم سے معافی مانگنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے آخر کار حُر تحریک کے رہنما پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی سورہیہ بادشاہ پیر پاگارہ کو 20 مارچ 1943 کو حیدرآباد سینٹرل جیل میں پھانسی دیکر لاش کو کسی نا معلوم مقام پر دفنا دیا آپ نے مسکراتے ہوئے پھانسی کا پھندہ گلے میں ڈال لیا لیکن کافر کی غلامی اور جابر سے معافی طلب کرنے کو ہر گز گوارا نہ کیا انگریز سرکار نے پگارہ خاندان کو جذبہ آزادی سے سر شار دیکھا تو انہوں نے ایک حل تلاش کیا وہ یہ کہ دونوں بیٹوں کو لندن بھیج دیا ان کو فرنگی تخیلات دے کر ان کے روح و بدن سے آزادی کی تڑپ خودداری قومی حمیت اور روح محمدی کو نکال دیا تو 1952 میں حریت کی روح کے بغیر واپس بھیج دیا اب اس خاندان سے کسی کو خطرہ نہیں تھا اب 80 سال سے اس خاندان میں کوئی سورھیہ بادشاہ پیدا نہیں ہوا جب حروں کی تربیت جذبہ آزادی و شوق شہادت سے خالی ہوئی تو وہی پیر سائیں جس کے ایک اشارہ ابرو پر حر جان نچھاور
کرتے تھے اپنے حلقے سے الیکشن ہار جاتا ہے یہ صرف پگارہ خاندان اور حروں کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ایسا ہماری پوری قوم کے ساتھ ہوا ہے ہمارے آباء واجداد نے حقیقی آزادی اور قومی حمیت و تشخص کے لیے قربانیاں دیں تھیں لیکن شروع سے ہی چند قائدین کے سوا ذہنی غلام ہم پر مسلط ہو گئے اسی لیے سر سید احمد خان نے کہا تھا جن سے قوم کی تعمیر کی توقع تھی وہ خودہی بگڑے جا رہے ہیں اور بانی پاکستان نے بھی ان کی حالت دیکھ کر کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں جس شخص نے بھی اس قوم کو جگانے یا اس کو حقیقی آزادی کا مطلب سمجھانے اس کے اندر غیرت قومی حمیت پیدا کرنے کی کوشش کی اسے کسی نہ کسی طرح نہ صرف روک دیا گیا بلکہ اسے اس جرم کی سزا بھی دی گئی کیونکہ اسی ڈگر پر رہنے میں ہی مفاد پرست حکمران طبقے اور دیگر ملکوں و اقوام کے مفادات پورے ہوتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو (ان لوگوں سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں لیکن میں ان کے اس فکر کی بات کر رہا ہوں) نے قوم کو اپنے حق کی آواز بلند کرنے کا شعور دیا اور مسلمانوں کو اکھٹا کرنے کی شعوری کوشش کی مسلمانوں کو ایک طاقت بننے کا درس دیا جو بہت بڑا جرم تھا تو ایک بوگس کیس میں پھنسا کر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے لوگوں کو آئین و قانون کا شعور دینے اور نظام کو بدلنے کی کوشش کی جو مسائل کی اصل جڑ ہے تو ان کے لوگوں کو قتل کر کے اور دیگر مقدمات میں ان کو الجھا کر علیحدہ کر دیا گی عمران خان کا بھی یہی جرم تھا کہ اس نے بھی تبدیلی کی بات کی غریب کے حقوق کی بات کی ریاست مدینہ کی بات کی اسلام کی بات کی بے شک خان صاحب کو ان اہداف میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی لیکن یہ اس کا جرم تو تھا ناں اس لیے خان کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا وہ ساری قوتیں اکٹھی کر دی گئیں جن کی زندگیاں قوم کو گمراہ کرنے غلام ابن غلام بنانے جہالت بانٹتے گزریں جو پچاس سالوں میں قوم کی حالت نہ بدل سکے جن کی زندگیاں ایک دوسرے کو گالم گلوچ چور ڈاکو لٹیرے کہتے گزر گئیں جو ایک دوسرے کو دیکھنا گناہ سمجھتے تھے آج بغل گیر ہو کر ایک ہی پلیٹ میں کھا رہے ہیں ابھی سزا تھوڑی سی دی گئی ہے مجھے خوف ہے کوئی بڑی سزا نہ دے دی جائے یہ سارے کھیل اس لیے کھیلے جاتے ہیں تاکہ جو حقیقی آزادی غریب کے حقوق مسلمانوں کے وقار کی بلندی اتحاد امت اور غیرت قومی حمیت کی بات کرے اس کو ایسی سزا دو جو دوسروں کے لیے نشان عبرت بن جائے تاکہ اتنا جلدی کوئی اور جرات نہ کر سکے ان کے دل میں لالچ خود غرضی احساس کمتری کا خوف ڈال کر ان کے تن بدن سے قومی غیرت و حمیت کو نکال دیا جائے جیسے پگارہ خاندان سے نکال دی گئی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں