columns 150

قوموں کے عروج وزوال

قوموں کی شکست وزوال کے حوالے سے دنیا بھر کے ماہرین مفکرین اور تجزیہ نگار مختلف النوع نظریات پیش کر تے چلے آرہے ہیں اپنے اپنے تجریات مطالعے اور مشاہدے کی بنیاد پر صائب الرائے طبقے کی آرا میں غوروفکر کا بڑا سامان موجود ہے اگر کوئی سمجھنا سیکھنا اور سبق حاصل کر نا چاہے تو اسے قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کر نا چاہیے.

یہ بات طے شدہ ہے کہ جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو وہ خود تنقیدی عمل سے گزرنے لگتی ہے اور اپنے شکستہ ماضی کے اسباب وعوامل پر غور وفکر کر کے سبق حاصل کر تی اور روشن مستقبل کی راہیں متعین کرتی ہے جبکہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اپنی خامیوں‘ ناکامیوں لفزشوں اور نقائص و عیوب پر نظرثانی کرکے سیکھنے اور سبق حاصل کر نے کے بجائے انہیں چھپانے اور نظر انداز کر نے کے عادی ہوتے جار ہے ہیں.

اس پر مستزادیہ کہ اپنی شان سمجھتے ہیں یہ امرواقعہ ہے کہ کوئی بھی زوال دائمی نہیں ہوتا آگے بڑھنے ترقی کر نے اور اپنے مستقبل کو تا بناک بنانے کے راستے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ہمارے پاس تو قرآن مجید کے واضح احکامات وہدایات موجود ہیں نبی کریم ؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہے نصیحت حاصل کرنے کے لئے خلفائے راشدین اور دیگر اکابرین ومفکرین کی تحریر یں اور کارنامے ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.

ہمیں یہ حقیقت کھلے ذہن ودل سے تسلیم کرلینی چاہیے کہ قومیں صرف اپنی تنقید واصلاح ہی سے زندہ رہ سکتی ہیں جن معاشروں میں تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا اور وہ تنقید میں تعبیر کا پہلو تلاش کرنے سے قاصر رہتے ہیں تویہی نا شناسی ان کے زوال کا سبب بن جاتی ہے.

مفکرین کے نظریات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ پہلا نظریہ جبر یت سے متعلق ہے یعنی انسان بحیثیت فرد مجبور رمحض ہے اسی طرح قومیں بھی مجبور ہیں جس طرح انسان مکمل طور پر صاحب اختیار نہیں ہے اسی طرح قومیں بھی کلی با اختیار نہیں ہیں اس طبقہ فکر کے داناؤں کا کہنا ہے کہ انسان جو کچھ کر تا ہے وہ آسمانی طاقت کے حکم ہی سے کر تا ہے.

اپنی قسمت کے سامنے بے بس اور مجبور ہے اسی طرح قوموں کے عروج وزوال کی داستانیں بھی نصیب ہی کے زیر اثر ہیں قوموں کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں ہے یہ وہ انداز فکر ہے جو ہزاروں سال پہلے انسان نے اختیارکیا پھر جب انسان کی غور وفکر کرنے کی صلاحیت زیادہ با لغ ہو ئی اور اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر ڈالی اور سوچنا سمجھنا اور قول و عمل کے نتائج کو پر کھنا ور جانچنا شروع کیا تو اسے معلوم ہوا کہ حضرت انسان کی تباہی اور خوش حالی خود اس کے اعمال کا نتیجہ ہو تی ہے .

دوسرا یہ کہ انسان انفرادی اور قومیں اجتماعی طور پر دور اندیشی محنت عمل پیہم ویقین محکم اور جذبہ صادق سے کام لے کر اپنی طاقت کو بدل سکتی ہیں اور اپنے مستقبل کو روشن و تا بناک بنا سکتی ہیں جبکہ بد اعمالیوں
کو تاہیوں غلطیوں لا پر واہی غلط فیصلوں اور جز وقتی اقدامات سے قومیں اپنے آپ کو تباہ و برباد کر لیتی ہیں بعض دانشوروں اور مفکرین نے قوم کو ایک زندہ جسم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح جانور اور انسان بچپن جوانی بڑھا پے اور پھر موت کی منازل طے کر تا ہے.

اسی طرح قوموں کے لئے بھی یہ لازم ہے کہ وہ عروج کی بلند یوں پر پہنچنے کے بعد زوال کی منزلوں سے بھی گزریں اور روشن مستقبل کا سبق حاصل کریں مثلا کارل مارکس نے قوموں کی شکست وزوال کے جو معاشی اسباب بیان کئے ہیں ان کی صحت سے انکار کی گنجائش ممکن نہیں جبکہ ایک اور مفکر ٹائن بی کے نزدیک اگر چیلنجز کا مقابلہ نہ کیا جائے تو شکست مقدر بن جاتی ہے .

اسی پس منظر میں وطن عزیز پاکستان کی سات
دہائیوں کی معاشی سیاسی عدالتی سماجی دفاعی پارلیمانی اور جمہوری تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے من حیث القوم کسی شعبہ ہائے زندگی میں ترقی کا میابی وکامرانی کی کوئی قابل تقلید اور درخشاں مثال قائم نہیں کی بلکہ ہر جانب افراتفری انتشار بے چینی نا انصافی بدعنوانی ہلاکت خیزی تباہی و بربادی تنزل ادبار اور انحطاط کے آثار نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں.

تمام ریاستی ادارے اپنے استحکام اور بقا کی جنگ میں کامیابی کے منتظر دکھائی دے رہے ہیں قائد اعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد اس ملک کے عوام کو کوئی ایسا صاحب کردار رہنمانہ مل سکا جو گرداب میں پھنسی اس ملک کی کشتی کو منزل تک پہنچانے کی مخلصانہ کوشش کرتا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قائد کا پاکستان سلامت نہ رہ سکا .

اور اپنے قیام کے دو عشروں بعد ہی دو لخت ہو گیا سیاسی قیادت کی نااہلیوں کوتاہ اندیشی بد عنوانیوں بد اعمالیوں کے باعث غیر سیاسی طاقتور قوتوں نے ایوان اقتدار میں اپنے قدم جمائے اس پر مستزاد ایوان عدل سے مارشلائی حاکموں کو فراخ دلی سے نظریہ ضرورت کی سند جواز بھی عطا کی جاتی رہی ہے۔ آئین پاکستانی کے تحت تمام ریاستی اداروں کا دائرہ کار متعین ہے لیکن بدقسمتی سے ہر ادارہ دوسرے ادارے پر اپنی حاکمیت و تسلط قائم کرنے کا خواہاں ہے یہ بدر کا منظر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے.

افسوس اور دکھ اس بات کا ہے کہ دوسروں کی آنکھ کا بال تو سب کو نظر آجاتا ہے لیکن اپنی آنکھ کاشہتیر کوئی نہیں دیکھ پاتایہی ہماری اس نامراد قوم کا المیہ ہے جس نے سیاست صحافت عدالت معیشت قیادت اور طاقتور حلقوں سب کو بے توقیر اورذلیل و رسوا کر رکھا ہے لیکن کسی کو احساس ندامت نہیں اور نہ ہی قومی وقار اور ملکی عزت کا خیال ہے.

ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی جو گذشتہ تقریباً چار عشروں سے اقتدار میں رہی ہیں مفکرین وتجزیہ نگار انہی کو آج کے مخدوش ملکی حالات کا ذمے دار قرار دیتے ہیں پاکستان کو غریب اور مقروض ملک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے کر وڑوں عوام غربت مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں پاکستان منجدھار میں گھراہوا ہے اور یہ سب سیاستدان اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں