قندیل ادب کے زیر اہتمام محفل مشاعرہ

قارئین کرام! گوجرخان کی دھرتی سیاسی پس منظر کی وجہ سے مشہور ہے‘ عسکری پس منظر کی وجہ سے بھی مشہور ہے، یہاں کے قدیمی قصبہ سُکھو کا تلواں مشہور ہے، یہاں کی مونگ پھلی دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہے، لیکن اس کیساتھ ساتھ جو وجہ شہرت اس تحصیل کی ادبی و معاشرتی حلقوں میں مشہور ہے وہ باذوق افراد کا اس مٹی سے تعلق اور پھر شہداء اور غازیوں کی دھرتی کہلانا سب سے زیادہ فخر کی بات ہے‘ دو نشان حیدر کی حامل سرزمین گوجرخان نے کئی ایسے ہیرے جنم دیئے ہیں جو ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی تعلیمی قابلیت و خداداد صلاحیت سے لوہا منوا چکے ہیں۔ قارئین کرام! دسمبر کا مہینہ بہت سارے لوگوں کی یاد دلاتا ہے اور بہت سارے لوگ اسے درد کا مہینہ بھی کہتے اور سمجھتے ہیں، دسمبر کی ٹھنڈک، اس کے چھوٹے دن اور لمبی راتیں اس بات کی ڈیمانڈ کرتی ہیں کہ سرشام کوئی محفل سجائی جائے اور پھر رات گئے تک بیٹھ کر اس محفل سے لطف اندوز ہوا جائے، اسی دسمبر کے حسین و ٹھنڈے ٹھار لمحات کو یادگار بنانے کے لیے جاتے دسمبر کی یخ بستہ شام اہلیان گوجرخان نے ادب کے نام کر دی‘ ادبی تنظیم قندیلِ ادب کے زیراہتمام ”سیال ایسوسی ایٹس” کے لان میں منعقدہ محفل مشاعرہ میں شعراء نے اپنے کلام سنا کر حاضرین سے خوب داد سمیٹی‘ادبی تنظیم قندیلِ ادب کے روح رواں معروف علمی و ادبی شخصیت سید نسیم تقی جعفری نے گوجرخان کے باذوق افراد کو دسمبر کی یادگار شام میں کچھ اہم ادبی شخصیات سے ملوایا’محفل مشاعرہ میں ملک کی نامور علمی‘، ادبی‘ مطالعاتی شخصیات جن میں معروف تجزیہ کار و کالم نگار محمد اظہار الحق، معروف شاعر احسان اکبر، معروف مذہبی سکالر، دانشور و شاعر ڈاکٹر شبیہہ الحسن رضوی سمیت دیگر شعراء منصور آفاق، جاوید احمد، حسن عباس رضا، ڈاکٹر منور ہاشمی، شہزاد قمر، انجم خلیق، طارق نعیم، رفیق سندیلوی، ڈاکٹر نثار ترابی، اختر عثمان، محمد نصیر زندہ، سعید دوشی، شکیل اختر، رحمان حفیظ، احمد ادریس مرزا، ثاقب امام رضوی، شیراز مغل، سائل نظامی، آفاق خالد نے شرکت کی اور اپنے کلاموں سے حاضرین کے دل موہ لئے، جہاں اردو کلام حاضرین کی سماعتوں کے حوالے کئے گئے وہاں کچھ پوٹھوہاری کلام بھی سنائے گئے جن پہ حاضرین نے خوب داد دی، لیکن جو بات میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ انقلابی نظموں و اشعار کو حاضرین کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی، محفل مشاعرہ کے صدر معروف شاعر انور مسعود اپنے قریبی ساتھی و معروف شاعر سرفراز شاہد کی وفات کے باعث شرکت نہ کر سکے، معروف شاعر حسن عباس رضا نے اپنا مشہور زمانہ کلام ” آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے، لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے ” فرمائش پر جب خود ترنم میں گایا تو حاضرین تالیاں بجانے اور داد دینے پر مجبور ہو گئے، معروف شاعر و مذہبی سکالر ڈاکٹر شبیہہ الحسن رضوی نے چنیدہ اور اعلیٰ اشعار حاضرین کی سماعتوں کے حوالے کئے، انکا انداز بیان چونکہ سب سے منفرد اور الگ ہے تو وہ مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے میں بھی سب سے ممتاز رہے، ایک اور اہم بات یہ کہ مہمان شعرائے کرام نے گوجرخان کے باذوق سامعین کی سماعت اور داد دینے کو مثالی قرار دیا جو نہایت خوش آئند اور قابل فخر بات ہے، حاضرین میں گوجرخان کی اہم سیاسی، سماجی، صحافتی شخصیات، تاجر رہنما اور علمی و ادبی شخصیات موجود تھیں جنہوں نے اس مشاعرے کا بہت لطف لیا اور تاریخی و یادگار مشاعرہ منعقد کرانے پر ادبی تنظیم قندیل ادب کے روح رواں سید نسیم تقی جعفری کو مبارک باد دی، راقم کا مشفق و مہربان سید نسیم تقی جعفری کیساتھ چونکہ قلبی تعلق ہے تو انکی خصوصی دعوت پر راقم بھی اس محفل مشاعرہ کا حصہ بنا، جہاں اس مشاعرے کے انتظام و انصرام بھرپور تھے وہاں پر دسمبر کی بارش میں بھیگی ہوئی ٹھنڈی ٹھار رات میں حاضرین بھی ٹھنڈک کی وجہ سے سمٹے ہوئے بیٹھے تھے، مشاعرہ اوپن لان میں تھا اور شامیانے لگائے گئے تھے، اگر یہی مشاعرہ کسی بند ہال میں ہوتا تو اس سے زیادہ کامیاب رہتا، جیسا تجربہ دو سال قبل احمد ادریس مرزا کر چکے ہیں اور وہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب مشاعرہ تھا جس کو راقم نے آج بھی یاد رکھا ہوا ہے اور چند دن قبل احمد ادریس مرزا سے جب بات ہوئی تو کہنے لگے کہ نسیم تقی صاحب نے مشاعرہ چونکہ رکھ لیا اس لیے مناسب نہیں لگتا کہ میں بھی مشاعرہ کراوں، چند ماہ کے وقفے سے ان شاء اللہ مشاعرے کا انعقاد کروں گا، شاعری سے شغف رکھنے والے اور شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد ایسے مشاعروں کا انتظار کرتے ہیں۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں