قمر السلام راجہ کے ہاتھوں آبائی حلقہ نظر انداز

،آصف شاہ
سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی اور پاکستانی سیاست کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے اس میں کامیابی کا سہرا جھوٹ کے سر جاتا ہے چاہے کوئی بھی پارٹی ہو اس کے منشور کی پہلی لائن ہی جھوٹ سے شروع ہوتی ہے گزشتہ ہفتے کو ن لیگ نے ٹیکسلا میں ایک بڑا کنونشن کر کے تحریک انصاف کے سیاسی دعوے کی قلعی کھول دی کہ ن لیگ ختم ہوگئی بلکہ حصوں میں بٹ گئی ٹیکسلا میں گوکہ ن لیگ دو دھڑوں میں ہوگئی تھی لیکن کنونشن منقعد کرنے والے دھڑے نے وقت طور پر بازی مار لی اس کے اثرات پارٹی پر کیا ہونگے یہ ایک الگ بحث ہے اس کنونشن میں راولپنڈی کے تمام حلقوں سے ن لیگ کی قیادت موجود تھی اور وہ چھوٹے بڑے جلوسوں کے زریعہ پنڈال میں پہنچے اور اپنے ہونے کا احساس دلایا لیکن اس کے برعکس حلقہ این اے 57اور پی پی 10میں مسلم لیگ کا نہ تو جوش نظر آیا اور نہ ہی کوئی قافلہ یہاں سے جاتا نظر آیا الیکشن سے قبل اگر اس حلقہ پر نظر ڈالی جائے تو مسلم لیگ ن دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی تھی حقیقی ن لیگیوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی پارٹی کا علم بلند کیئے رکھا ہے اور انہوں نے نہ تو تحریک انصاف کو دیکھا اور نہ جیپ کی سواری کو ترجیح دی بلکہ کچھ یوسیز چیئرمین نے تو کھل کر مخالفت کی اور ن لیگ کا ساتھ دیاجن کو چوہدری نثار علی خان نے ایک جلسہ میں واضع طور پر کہا کہ وہ میری وجہ سے جیتے تھے اور آج کسی اور کشتی میں جا بیٹھے این اے 57 اور پی پی 10 میں ن لیگ کو سخت نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا تھا کہ ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار اور اس کا نام استعمال کرنے والے امیدوار بھی بری شکست سے دوچار ہو گئے تھے جنرل الیکشن میں ن لیگ کیلئے بہت ساری مشکلات موجود تھیں ان حلقوں میں ن لیگ کو ووٹ دینا تو دور کی بات اس کا نام لینا بھی مشکل تھا تو ایسے کی موجودگی میں بہت سے اپنے آپ کو بہت بڑا ن لیگی کہلانے والے بھی مسلم لیگ کا ساتھ چھوڑ گئے تھے موجودہ نائب صدر قمر السلام راجہ گرفتاری کے بعد تو ان حلقوں سے ایک طرح تو ن لیگ کا تو ایک قسم کا صفایا کر دیا گیاتھا لیکن گزشتہ کنونشن میں ان مقامی سیاسی لیڈران کی عدم شرکت یا زاتی طور پر جانے کے فیصلے سے ن لیگ کا نعرہ بلند کرنے والے ن لیگ کے کارکنان یکسر حیراں پریشان رہ گئے ہیں اس کاکون ذمہ دار ہے یقینا اس کا قرعہ موجودہ نائب صدر پنجاب اور اس حلقہ سے الیکشن لڑنے قمرالسلام راجہ کے نام نکلتا ہے آٹھ نو ماہ کی قید سے رہائی کے بعد قمرلاسلام راجہ نے اپنی سیاست کا انداز بدل دیا وہ اب حلقہ میں محتاط سیاست کرتے دکھائی دیتے ہیں انہوں نے اپنے آبائی حلقہ کو چھوڑ کر اڈیالہ روڈ پر اپنا سیاسی مسکن بنا لیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قمرالسلام راجہ کنوینشن کے لیے اسی حلقہ سے سابق چیئرمین یوسی بشندوٹ زبیر کیانی سابق چیئرمین یوسی لوہدرہ نوید بھٹی سابق چیئرمین یوسی بگا عامر جمشید وائس چیئرمین یوسی غزن آباد اور اپنے قریبی عزیز سابق چیئرمین یوسی گف فیصل منور اور کلر سیداں سے بیشتر مقامی ن لیگی رہنماوں کی مشاورت سے ایک بڑے جلوس کی قیادت لیکر یہاں سے نکلتے لیکن شائید وہ ان معاملات میں پڑنا نہیں چاہتے ان کی طرز سیاست پرے پرے ہٹ والی ہو کر رہ گئی ہے اگر ایسے موقعوں پر وہ ان لیگی رہنماوں کو اکھٹا نہیں کر سکتے تو بلدیاتی الیکشنوں میں وہ.کیسے یہ باور کرواسکے گے کہ سب ان کی زیر سرپرستی پارٹی پرچم کے نیچے ہوں گے سیاسی پنڈتوں کے مطابق قمراسلام راجہ کے قریبی عزیز فیصل منور نے جو بلدیاتی الیکشنوں میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا اس سے پارٹی میں پہلی پھوٹ ڈال دی تھی لیکن ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ اس موقع اے فائدہ اٹھاتے اور سب کو اکھٹا کرتے انہوں نے حلقہ کے سیاسی عمائدین کو چھوڑ کر اڈیالہ کے جلوس کی قیادت کو بہتر جانا،اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کیا ن لیگ کے مقامی لیڈران اتنے با اثر ہیں کہ وہ قمرالسلام راجہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ایسی بھی کوئی کیفیت نظر نہیں آتی پھر وہ کون سا انجانا خوف ہے جس کی وجہ سے قمرالسلام راجہ اپنے آبائی حلقے میں متحرک ہونے سے کنی کترا رہے ہیں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں ابھی تک چوہدری نثار علی خان کا سیاسی خوف ہو دوسری طرف ن لیگ کے اندرونی زرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ قمرالاالسلام راجہ کی موجودہ سیاست دو کشتیوں کے سوار جیسی ہے ایک طرف بے تکے ٹائم پر بلدیاتی الیکشنوں میں اعلان اور دوسری طرف جیپ کی سواروں کو جھپے یقینا ان کی سیاست کا کریا کرم کر دے گا دوسری طرف پارٹی کے لیے بے تحاشہ قربانیوں کے دعوے کرنے والے سابق چیئرمین یوسی گف فیصل منور بھی کوئی اکٹھ نہ کر سکے بقول ان کے کہ انہوں کی قربانیاں پارٹی کے لیے تھی پتہ نہیں وہ کون سی قربانیاں تھی اور کس وقت دی گئی جس کا ن لیگ کے ورکرز کو تو شائید پتہ ہولیکن صحافتی کمیونٹی اس سے لا علم ہے ،دوسری طرف آبائی حلقہ میں قمراسلام راجہ کی سیاسی سرگرمیاں تقریبا معدوم ہوتی نظر آرہی ہیں ان کا محور سیاست اڈیالہ روڈ بن گیا ہے معاملہ یہ نہیں کہ وہ اڈیالہ روڈ پر جاتے ہیں معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حلقے کا یکسر نظر انداز کیوں کرنا شروع کر دیا ہے یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا ہر ن لیگی جواب چاہتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں