راولپنڈی کی سیاست‘ خصوصاً نواحی حلقہ این اے 53 اور پی پی 10‘ اس وقت ایک غیر معمولی، حساس اور افسوسناک دور سے گزر رہی ہے جب حالیہ انتخابات میں نئے چہروں نے اسمبلیوں میں جگہ بنائی، تو عوام نے یہ امید باندھی کہ اب بہتری کا آغاز ہوگا،
تبدیلی کی ہوا چلے گی اور مسائل کا حل نکلے گا مگر یہ کون جانتا تھا کہ یہ ”تبدیلی“ اس قدر تلخ اور زہر آلود رخ اختیار کرے گی قومی اسمبلی کے رکن انجینئر قمر الاسلام راجہ اور صوبائی اسمبلی کے رکن چوہدری نعیم اعجاز کے حامیوں کے درمیان سوشل میڈیا پر سرد جنگ کا آغاز تو ابتدا ہی سے ہو چکا تھا، مگر اب یہ محض سیاسی کشمکش نہیں رہی بلکہ ایک خطرناک، ذاتیاتی اور زہریلی محاذ آرائی میں تبدیل ہو چکی ہے
اختلافِ رائے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے اور جو بھی ان عوامی نمائندوں کی کارکردگی پر تنقیدی نظر ڈالنے کی کوشش کرے اسے بدزبانی، بدتمیزی اور سنگین نوعیت کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اب اس جنگ میں عام شہری، صحافی اور سوشل میڈیا صارفین بھی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ سچ بولنے یا سوال اٹھانے کی پاداش میں انہیں ذاتی حملوں، الزامات، حتیٰ کہ کردار کشی کا نشانہ بنایا جاتا ہے
صحافت جو کبھی رائے عامہ کی رہنمائی کا ذریعہ تھی، اب دباؤ اور خوف کی زنجیروں میں جکڑی جا رہی ہے جہاں ماضی میں سیاسی مباحث نظریاتی اور کارکردگی کی بنیاد پر ہوا کرتے تھے، آج کا سیاسی میدان ذاتیات، نفرت اور انتقام پر مبنی ہوتا جا رہا ہے سوشل میڈیا، جو کبھی معلومات کی فراہمی اور اظہارِ رائے کا مؤثر پلیٹ فارم تھا، اب بدتہذیبی، جھوٹ، اور اشتعال انگیزی کا اکھاڑہ بن چکا ہے
اس سارے منظرنامے میں سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ نوجوان نسل، جو کل قوم کی قیادت سنبھالنے والی تھی، آج محض سوشل میڈیا پر ”ٹاپ ٹرینڈ“ بنانے کا ہتھیار بن کر رہ گئی ہے مخالفین کی کردار کشی، جعلی خبریں، اور ذاتیات پر مبنی حملے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ اس عمل نے نہ صرف سیاسی ماحول کو مسموم کر دیا ہے بلکہ معاشرے میں عدم برداشت اور انتہاپسندی کو بھی جنم دیا ہے سیاسی قیادت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ نوجوانوں کی تربیت کرے، انہیں شعور دے، اور سیاست کو خدمتِ خلق کا ذریعہ بنائے۔
لیکن جب قیادت خود خاموش تماشائی بن جائے، تو بگاڑ کا راستہ خودبخود کھل جاتا ہے یہ لمحہ فکریہ ہے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو فوری طور پر اس بگاڑ کا نوٹس لینا چاہیے اور دونوں رہنماؤں کو ایک میز پر لا کر سوشل میڈیا پر جماعتی نظم و ضبط قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اختلافِ رائے جمہوری حسن ہے، لیکن اگر یہ اختلاف ذاتی دشمنی، تضحیک اور دھونس دھمکی میں بدل جائے تو نہ صرف جماعت کا تشخص داغدار ہوتا ہے بلکہ پورا جمہوری نظام کمزور پڑ جاتا ہے
سوال یہ ہے: ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیسا سیاسی کلچر دے رہے ہیں؟ کیا ہم انہیں شعور، برداشت، اور مکالمے کی روایت دیں گے، یا نفرت، شدت پسندی، اور ڈیجیٹل غنڈہ گردی کا زہر؟ اگر یہی طرزِ سیاست جاری رہا، تو یہ سرد جنگ کسی دن سیاسی تصادم کا بھیانک روپ اختیار کر سکتی ہے خدارا! ہوش کے ناخن لیجیے