457

قمرالسلام راجہ کے ہاتھوں چوہدری نثار کی شکت

این اے 53 کے امیداروں کی سیاست کا ماضی اور حال وقت اور حالات کے جبر کے تناظر میں۔یوں تو چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں سمت کئی آزاد امیدواروں نے اس حلقہ سے بطور امیدوار الیکشن میں حصہ لیا لیکن نمایاں ترین امیدواروں میں چوہدری نثار علی خان، انجنیئرقمرالاسلام راجہ اور ریٹائر کرنل اجمل صابر راجہ ہی تھے جن میں ہر ایک امیدوار کی سیاست کا پس منظر ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہے کہ اس کو سمجھے بغیر سیاست کا کوئی بھی طالبِ علم سیاسی حقائق کا مکمل ادراک نہیں کر سکتا ہے اگر کہا جائے کہ اس الیکشن نے حلقہ کے سب سے طویل اور گہرے سیاسی کردار یعنی چوہدری نثار علی خان کی سیاسی شخصیت کو پرکھنے کے سارے میزان پیمانے اور سانچے غیر موثر کر دیے تو یہی دو ٹوک اور حتمی حقیقت ہو گی اِس کردار نے سن انیس سو اسی کی دھائی میں جس قدر تیز رفتاری سے سیاست کے خلا میں اپنا پھیلاؤ کیا آج اُس کا سُکڑاؤ بھی عین اُسی کیفیت کا مظہر ہے گویا وقت لپیٹا جا چکا ہے اپنے دیگر مدِ مقابل حریفین کے تناظر میں چوہدری نثار آج جس حالت میں اور جس مقام پر پڑاؤ کیے نظر آتے ہیں اُس میں وقت اور حالات کا جبر نہ کے برابر ہے آج اس کردار کو جو کچھ درپیش ہے وہ اُس کی اپنی سیاسی حکمتِ علی منصوبہ بندی اور پیش بندی کا ہی کیا دھرا ہے۔ جبکہ اُن کے مقابل انجینئر راجہ قمر اسلام اس لحاظ سے منفرد سیاسی کردار ہے کہ اُن کی سیاست وقت اور حالات کے جبر سے عبارت ہے وقت اور حالات کا جبر دنیا میں سب سے بڑا جبر ہوتا ہے راجہ قمرالاسلام کی سیاست پر وقت اور حالات کا جبر اُن کی سیاست میں آمد کے ساتھ ہی اُن کے ہم رکاب رہا ہے بلکے اگر یوں کہا جائے کہ وقت اور حالات کے جس جبر کا قمر الاسلام راجہ شکار ہیں یا رہے ہیں اُن کے پیدا کرنے میں چوہدری نثار علی کا بھی بہت بڑا کردار ہے راجہ قمرالاسلام کا حلقے کی نمائندگی کے لیے انتخاب گویا قدرت کی طرف سے اُس سلوک کا مداوا ہے جو اُن کے ساتھ وقت اور حالات کے جبر نے روا رکھا ہے۔جہاں تک اجمل صابر راجہ کا تعلق ہے وہ مکمل طور ایک انحصار کرنے والی شخصیت ہیں یہ انحصار کسی لہر کسی شخصیت اور کسی رویے پر بھی ہو سکتا ہے اور جب امید بڑھ جائے تو تَکیَہ کرنے اور استقامت دیکھانے کے لیے گنجائش پیدا کرنا آسان ہو جاتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں