قلعہ نما محل یا محل نما قلعہ۔۔؟

ملک ظفر اقبال
یوں تو دنیا میں بے شمار محلات اور قلعے بنے ہوئے ہیں محل تمام تر آسائشوں کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے بنایا جاتا ہے اور قلعہ اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہوئے مخالف قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے اور ہزاروں سال قبل بادشاہوں نے اس قسم کے کارنامے سرانجام دیے تھے جو کہ آج بھی مشہور ہیں مگر جدیددور میں قلعہ نما محل جو کہ پنجاب کے صوبائی دارلحکومت لاہور میں ایک خاص مقصد کے تحت تیار کروایا گیا ہے جو کہ باہر سے دیکھنے پر قلعہ اور اندر سے دیکھنے پر ایک محل معلوم ہوتا ہے اور اس میں تمام تر آسائشیں موجود ہیں اور تیار ہو رہی ہیں اور اس کو بلاول ہاؤس کا نام دیا گیا ہے جو کہ رائے ونڈ محل کے مقابلے میں تیار کیا گیا ہے جو کہ سینکڑوں کنال اراضی پر محیط ہے اور جدید دور کا منہ بولتا شاہکار ہے محل رہائش کے لیے ہے اور قلعہ پنجاب کو فتح کرنے کے لیے ہے جو کہ مسلم لیگ ن کو کمزور کرنے کی کوشش کنا مقصود ہے او ر آجکل صدر پاکستان بہ نفس نفیس اس میں براجمان ہیں اور سیاسی جدو جہد کے ساتھ ساتھ حکمت عملی طے کی جا رہی ہے چونکہ ا لیکشن کی آمدآمد ہے اور جیالوں کو ایک مضبوط اور شاندار ٹھکانہ مہیا کرنا ضرورت تھی جہاں سے مختلف اوقات میں ہر طرح کی ہدایات دی جا سکیں زندہ دلان شہر لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور پنجاب کا مرکز ہے اسلیے قلابازیاں کھانے والی سیاسی شخصیات کو رائے ونڈ کی بجائے اس محل کی طرف راغب کیا جانا بھی ایک حکمت عملی ہے اور وہاں پر تمام معاملات طے کرنے اور مسلم لیگ ن کے خلاف حکمت عملی تیار کرنے کے لیے جوڑ توڑ کے ماہرین کو تعینات کیا گیا ہے چونکہ صدر موصوف نے کچھ عرصہ قبل لاہور میں ڈیرے ڈالنے کا اعلان کیا تھاجو کہ اب ڈیرہ ڈال کر پورا کر دیا ہے ان کے خیال میں تمام سیاسی شخصیات میاں برادران کے مقابلے میں فیل ہو چکی ہیں اس لیے ان کا خود وہاں ٹھہرنا ضروری ہو گیا ہے اور پارٹی کی قیادت کے ساتھ ساتھ در پردہ اتحاد بنانے اور انھیں ہر قسم کی سہولت اور امداد فراہم کرنے کی حکمت عملی پر عمل شروع ہو چکا ہے۔جس کا مقصد صرف اور صرف مسلم لیگ ن کو کمزور کرنا اس کا ووٹ بنک توڑنا اور آئندہ کے لیے سیاست میں کھڈے لائن لگانا ہے چونکہ پیپلز پارٹی کے پرانے تجربہ کار سیاسی شخصیات کے علاوہ چوہدری برادران،عمران خان،طاہر القادری اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے سیاسی گروپ جو کہ مسلم لیگ ن سے نالاں ہیں متحد ہو کر مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک میں خاطر خواہ کمی کا سبب بن سکتے ہیں چونکہ ایک بات طے ہے کہ پیپلز پارٹی کا جیالا کسی صورت پارٹی کو نہیں چھوڑ تا اس لیے مسلم لیگ ن کو نقصان کا اندیشہ ہے اور لاہور کے ساتھ ساتھ پورے پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات پیدا کی جا سکتی ہیں جس کے لیے اب میاں برادران اور پارٹی کے سینیر رہنماؤں کو بڑی تگو دو اور سوچ سمجھ کر حکمت عملی بنانی ہوگی مسلم لیگ ن کو در پیش چیلنجوں میں ووٹروں کو متحد رکھنا،ٹکٹوں کی تقسیم،اور سرکردہ کارکنوں کو ایک خاص حکمت عملی کے تحت سرگرم کرنا،اور ایک عام ووٹر کو ترجیح دینا اور خاص کر ووٹروں اور کارکنوں کے جذبات اور تجاویز کو ترجیح دینی ہوگی تاکہ کارکن اور ووٹر بد دل ہو کر پر کشش مراعات کی طرف رجوع نہ کریں نئے ووٹروں کے ساتھ ساتھ ناراض کارکنوں کو راضی کر کے ووٹ بنک مزید بڑھانا ضروری ہو گیا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صدر موصوف میاں برادران سے ملاقات کے لیے رابطے میں ہیں مگر تا حال ملاقات طے نہیں ہو پا رہی بظاہر یہ ملاقات ایک تعزیت کرنے کے لیے ہے مگر میاں برادران کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو سکتی ہے شاید ان سطور کی اشاعت تک ہو جائے مگر چونکہ طاہر اقادری اور عمران خان پہلے ہی ان دونوں شخصیات پر مک مکا کی سیاست کا الزام لگا چکے ہیں اور اب اس الزام کو مزید تقویت ملے گی چونکہ نگران سیٹ اپ کی نامزدگی ہونی باقی ہے جس کے لیے شخصیات میں صلاح مشورہ ہونا بھی باقی ہے اس لیے میاں برادران کو کافی سوچ سمجھ اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور حکمت عملی طے کرنا ہوگی اور لاہور کے ساتھ ساتھ پورے پنجاب میں اپنی گرفت مضبوط رکھنی ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ ووٹروں اور کارکنوں کو بھی محتاط رہنا ہوگا اور اپنی وفاداری خوب نبھانا ہوگی کہیں یہ نہ ہو کہ قلعہ نما محل پنجاب کی سیاست میں اہم ثابت ہو جائے اور رائے ونڈ محل ایک یادگار کے طور پر رہ جائے آنے والا وقت اہم ہے اور اس میں بہت سی تبدیلیوں کی توقع کی جا رہی ہے جو کہ آمدہ الیکشن کے لیے اہم ثابت ہوں گی۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں