ہرسال کی طرح اس سال بھی مسلمانوں نے جوش وخروش اورمذہبی عقیدت واحترام سے قربانی جیسا اہم فریضہ سرانجام دیا جس سے ایک طرف تو مسلمانوں کوخوشی محسوس ہوئی جبکہ دوسری طرف اسلام مخالف طبقہ نے خوب واویلا کیا انکی تکلیف سمجھ سے بالاترہے جبکہ وہ یہ بات سمجھنے سے عاجز ہیں کہ اسلام کا مطلب یہی ہے کہ اللّٰہ ورسول اللّٰہ کے احکامات، طاعت وفرما برداری کوتسلیم خم کرتے ہوئے گردن جھکا کرمان لینا اسی اطاعت وفرمانبرداری کرنیوالے کومسلمان کہتے ہیں
اسلام مخالف طبقہ کو،دین دشمن عناصرکی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ دین اسلام کے بنیادی ارکان عقائد ونظریات میں خوبی کی بجائے خامیاں تلاش کی جائیں لیکن ہربار ان کو ناکامی کاسامنا کرنا پڑتاہے کیوں کہ دین اسلام اللّٰہ کے ہاں کامل بھی ہے اکمل بھی ہے مقبول بھی ہے لوگوں کیلئے ہدایت بھی ہے اورذریعہ نجات بھی ہے ان سب سے بڑھ کردین اسلام کے ہرہرعمل میں حکمت ہی حکمت پوشیدہ ہے جو ہرانسان کیلئے نفع سے خالی نہیں لیکن یہ سب ان دین دشمن عناصرکوسمجھ نہیں آتاجس طرح وہ دین اسلام کے اندرعیب تلاش کرتے ہیں ایسے ہی وہ عیدقربان پربھی اپنی ضد،انا،حسد،اورمذموم کوشش کو جاری رکھے ہوتے ہیں
وہ مسلمانوں کے دلوں میں مختلف مقامات پردین اسلام کے متعلق شکوک وشبہات پیداکرنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں جبکہ اگردیکھاجائے توقربانی مسلمانوں کیلئے برکت کاباعث ہے اجروثواب کے ساتھ ساتھ غریب عوام کیلئے بھی خوشی کا باعث ہے اب جب مسلمان نے عیدقربان پر اللّٰہ کے حضوراپنے مال کے عوض جانور خریدکرقربان کئے تویہ اعتراض اٹھایاجانے لگاکہ جانوروں کو ذبح کرکہ خون بہانے کاکیا فائدہ اوردوسرا اعتراض یہ بھی لگایاکہ اسی پیسے سے قربانی کرنے کی بجائے کسی غریب کی مددکردی جاتی تو زیادہ اچھا ہوتا پہلے اعتراض کاجواب قرآن مجید میں موجود ہے اوراحادیث مبارکہ میں بھی اوراس دور کی مناسبت سے بھی بے شمار جوابات موجودہیں
چنانچہ ارشادباری تعالیٰ ہے اللّٰہ کے ہاں ہرگز نا توتمہارا گوشت پہنچتاہے ناخون لیکن اللّٰہ کے ہاں تقوی پہنچتا ہے حدیث مبارکہ میں نبی اکرم شفیع اعظمﷺ نے فرمایاکہ جانورکے ہر ہربال کے بدلہ میں نیکی ملتی ہے یہ سنت حضرت ابراہیم علیہ السلام سے چلی آرہی ہے اسی طرح ان حلال جانوروں کوذبح ہوتے ہوئے ہزاروں سال گزرچکے نا توان کی قلت پیدا ہوئی اور ناہی انکی کمی کومحسوس کیاگیاحالانکہ حلال جانورکاجب بھی بچہ پیداہوتاہے وہ ایک ہوتاہے یا دو جبکہ حرام جانورکے ہاں چھ سے سات بچوں کی پیدائش ہوتی ہے
اس کے باجود ہمیں حلال جانوروں کے ریوڑ نظرآتے ہیں جبکہ حرام جانورتلاش کرنے سے بھی بمشکل ملتے ہیں کیا یہ نشانی سمجھنے کیلئے کافی نہیں پھراس کے بعد اگردیکھاجائے توعیدقربان کے موقع پرقربانی کے جانوروں کا جوکاروبارہوتاہے وہ عیدکے تین دنوں کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا کاروبار ہوتاہے جس سے لاکھوں لوگوں کواربوں روپے کامنافع ہوتاہے لاکھوں لوگوں کوروزگار میسرآتا ہے یہ وہ واحد کاروبارہے جس میں کسی ایک کوبھی نقصان نہیں ہوتابلکہ پرکسی کو فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے جیسا کہ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے فروخت کرکہ پوراسال اپنے گھرکا نظام چلاتے ہیں ان جانوروں کی آمدورفت سے گاڑی مالکان کومنافع ملتا ہے اس کے چارہ کوفروخت کرنے والوں کو روزگار ملتاہے چھری وغیرہ کی فروخت میں اضافہ ہوتاہے
عیدوالے دن قصائی کواجرت ملتی ہے چمڑہ فروخت ہونے سے چمڑے سے بننے والی مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے چمڑہ فیکٹری میں جان آتی ہے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتاہے وہاں مزدور کے گھرخوشحالی آتی ہے جوغریب پورا سال گوشت کیلئے ترستے ہیں انہیں بھی مفت گوشت میسرآتاہے اس قربانی کی وجہ سے صرف غریب کوگوشت ہی میسرنہیں آتابلکہ پوراسال اس کیلئے روزگارکا بندوبست بھی ہوتاہے صرف اللّٰہ کے ایک حکم پوراکرنے اورانبیاء کرام علیہم السلام کی ایک سنت زندہ کرنے سے لاکھوں لوگوں کوایسا منفرد منافع بخش کاروبار میسرآتاہے کہ انسانی عقل بھی دنگ رہ جاتی ہے
ان سب باتوں کونظراندازکرکہ پھر بھی اعتراض کرناسمجھ سے بالاترہے ان سب باتوں کوبالاطاق رکھتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا اورسمجھناچاہیے کہ ہم سب سے پہلے مسلمان ہیں بحیثیت مسلمان ہم پرکیاذمہ داری عائدہوتی ہے اسلام ہمیں کن باتوں کا حکم دیتاہے جب اسلام کا حکم آجائے توہمیں شکوک وشبہات پیدا کرنیوالوں کی باتوں کونظراندازکرکہ انکی باتوں کو اہمیت نہیں دینی چاہیے بلکہ انکی باتوں کوسننا بھی گوارا نہیں چاہیے کہ سب سے بہترحل ہے
qr کیوں کہ جب مسلمان مذہبی فریضے کی ادائیگی میں اللّٰہ ورسول اللّٰہ کے احکامات کوترجیح دیں گئے توایسے لوگ جوشکوک وشبہات پیداکرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خودبخود خاموش ہو جائیں گئے کیونکہ جب اللّٰہ کا حکم آجائے توہمیں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللّٰہ کے حکم کی پیروی کرنی چاہیے اس کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کرناچاہیے مسلمانوں کوچاہیے اپنے اسلام پر قائم رہیں کسی بھی پروپیگنڈا کاشکار نا ہوں اسلام پر قائم رہنا ہی دراصل مسلمانوں کی خیر و بقا کاراز پوشیدہ ہے۔