قربانی اللہ کے نزدیک بندے کا پسندیدہ عمل

شہزادنقشبندی/قربانی ایک ایسا عمل ہے جو اللہ رب العزت کو بہت ہی پسندیدہ اور محبوب ہے اس لیے اس عمل کو اللہ رب العزت نے ہر امت پر لازم قرار دیا ہے قران کریم کی سورہ حج کی آیت نمبر 34 میں اللہ تعالی فرماتا ہے ترجمہ( ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالی نے عطا فرمائے ) قربانی کاعمل اگرچہ ہر امت میں جاری رہا لیکن اس عمل کو شہرت دوام اور خصوصی اہمیت اس وقت حاصل ہوئی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اپنی پسندیدہ ترین چیز کو قربان کرنے کا حکم دیا گیاتو اپ نے اللہ تعالی کے حکم پر اپنے پیارے اور لاڈلے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کی مرضی سے اللہ تعالی کی بارگاہ عالیہ میں قربانی کے لئے پیش کر دیا جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے تھا اسی وجہ سے اسے سنت ابراہیمی کہا جاتا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ کہا جاتا ہے اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کے اس عمل مبارک سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں جو بھی عمل کرنا چاہیے محض اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا کے لیے کرنا چاہیے اور اپنی ہر دلعزیزاور پسندیدہ ترین چیز کو بھی صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے قربان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دیا ہوا سب اسی کا ہے نہ کہ اپنی نمود و نمائش کے لیے اپنی بڑائی اور پارسائی کے لیے ہر عمل کو صرف اور صرف اللہ تعالی کے لیے ہی خاص کرنے کے لیے ہی قرآن مجید میں ارشاد فرمایا سورہ حج آیت نمبر 37 میں ترجمہ( نہیں پہنچتے اللہ تعالی کو ان کے گوشت اور نہ خون البتہ پہنچتا ہے اس کے حضور تقوی تمہاری طرف سے) گویا مسلمانوں کی عملی زندگیاں اس آیت مبارکہ کا مصداق ہونی چاہیے اس طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ترجمہ( میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب اللہ کی رضا کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے) (انعام162) قربانی عربی زبان کے لفظ قرب سے ہے جس کا مطلب ہے کسی شے کے نزدیک ہونا قرب دوری کا متضاد ہے قربان قرب سے مبالغہ کا صیغہ ہے امام راغب اصفہانی قربانی کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں قربان وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے شرع میں یہ قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کرنے کا نام ہے قربانی کی فضیلت میں متعدد احادیث مبارکہ ملتی ہیں چند یہاں پر ذکر کی جاتی ہیں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ نہ بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے صحابہ نے سوال کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کیا ہے( قربانی کی حیثیت کیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا فرمایاہر بال کے بدلے میں ایک نیکی صحابہ کرام نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اون کے بدلے میں کیا ملے گا فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی (ابن ماجہ باب ثواب الاضحیہ) ایک اور حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عیدالاضحیٰ کے دن کوئی نیک عمل اللہ کے نزدیک قربانی کے خون بہانے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے ہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے لہٰذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کروں( جامع ترمذی) ایک حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس پر قربانی واجب ہو اور نہ کرے اس سے ناراضگی کا اظہار کیا ہے ارشاد فرمایا جس کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ بھٹکے( ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل )قارئین کرام فقہ حنفی میں قربانی کرنا محض سنت ابراہیمی ہی نہیں بلکہ ہر عاقل‘ بالغ‘ مقیم(مسافر پر قربانی واجب نہیں)، اور مسلمان صاحب نصاب پر واجب ہے جو مرد و عورت قربانی کے ان تین ایام میں صاحب نصاب ہوں ان پر قربانی کرنا واجب ہے نصاب سے مراد جو مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی یا مال تجارت میں سے کوئی چیز یا ان پانچوں چیزوں کا مجموعہ یا بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوں تو ایسے مرد و عورت پر قربانی واجب ہے یہ بات خاص طور پر ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ اگر ایک گھر کے پانچ افراد ہوں اور تمام کے تمام افراد صاحب نصاب ہوں تو پانچوں پر قربانی واجب ہے اگر صرف ایک قربانی کرتا ہے تو باقی چار سے قربانی ساقط نہیں ہو گی بلکہ ان پر اس کی قضا کرنا لازم ہے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثریت شادی شدہ عورتوں کی طلائی زیور کی وجہ سے صاحب نصاب ہوتی ہیں لیکن نہ تو زکوٰة ادا کرتی ہیں اور نہ ہی قربانی یہ ان پر واجب ہے اسکی باز پرس ان سے کی جائے گی نہ کہ ان کے خاوند سے لہذاوہ اس چیز کی ان کو تعلیم دی جاے آج کل کچھ نام نہادد روشن خیال یہ چرچا کرتے نہیں تھکتے کہ قربانی کرنا پیسوں کا ضیائع ہے اس کی بجائے وہی رقم غریبوں میں تقسیم کر دی جائے تو زیادہ بہتر ہے یہ بات ذہین نشین ہونی چاہیے کہ اگر آ ج قربانی کی بات کی جا رہی ہے تو کل حج کی بات کی جاے گی نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ کہا جائے گا پانچ لاکھ روپے خرچ کرنے کے بعد صرف اور صرف کھلے میدان میں کچھ دن گزارنے کا نام حج ہے یہ ساری جھالت کی باتیں ہیں فضول خرچی ہے مولویوں کی باتیںہیں حج کو چھوڑو ساری رقم غریبوں میں تقسیم کر دو قارئیں یہ شعائر اسلام ہیں ان کا انکاری خارج الاسلام ہے اسلام تو نام ھی اللہ کی کامل اطاعت و فرمانبرداری کا ہے جو حکم ملا بلا چون وچرا آمنا و صدقنا کہناجہاں تک بات ہے عوام الناس کی فلاح و بہبود کی تو اسلام نے زکوٰة و صدقات کی طرف بہت ترغیب دلائی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کامل ایمان والا نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھاے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے (شعب الایمان) دوسری با ت پاکستانی مسلمان شعائر اسلام (قربانی و حج وغیرہ ) پر عمل کرنے کے باوجود حالیہ ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنے والے ممالک میں شامل ہیں شعائر اسلام پر عمل ہی اصل ایمان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں