قرآن مجید کی فضیلت

 قرآن مجید نے اپنی تعریف خود ہی کر دی ہے سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ترجمہ: یہ قرآن رب العالمین کیطرف سے نازل کیا گیا ہے اسکو لیکر جبرائیل ؑ اترے اے محمد ؐ تمہارے قلب پر تاکہ توڈرانے والوں میں سے ہو اوریہ قرآن عربی زبان میں نازل ہواہے اس میں سب سے پہلے صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ یہ کتاب تنزیل ہے

تعنیف نہیں بالفاظ دیگر یہ اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے کسی مخلوق کی لکھی ہوئی نہیں چنانچہ تمام انسانی کتابوں سے ممتاز ہے دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب رب العالمین کیطرف سے نازل ہوئی ہے اور اللہ کیجانب سے اپنے بندوں کیلئے دستور حیات ہے آئین حیا ت اور نظام زندگی ہے اوریہ انسانوں کی تربیت کیلئے نازل ہوئی ہے تربیت جسمانی بھی ہوتی ہے اور روحانی و اخلاقی بھی اور قرآن اسی اخلاقی و روحانی تربیت کیلئے نازل ہوا ہے

یہ روحانی غذا بھی ہے اور امراض کیلئے شفاء اور دوا بھی۔ تیسری خصوصیت یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ یہ بواسطہ جبرائیل ؑ نازل ہوا ہے اور بہت ہی امانتدار فرشتے کے ذریعے نازل گیا گیا ہے جس نے اس میں اپنی طرف سے کسی حرف یا زیر و زبر کا نہ اضافہ کیا ہے اور نہ ہی کمی کی ہے اگرچہ سارے فرشتے معصومین اور پاکیزہ ہستیاں ہیں لیکن جبرائیل ؑ تو روح الامین کہلاتے ہیں چوتھی صفت یہ کہ جبریل امین کے ذریعے یہ قرآن سب سے پہلے قلب رسولؐ پر لکھا اور نازل کیا گیا ہے بعد میں دوسرے لوگوں نے اسے یاد کیا یا کاغذ پر لکھا پانچویں صفت یہ ہے

کہ یہ قرآن قلب محمدؐ پر محض اس لیے نہیں اترا کہ آپؐ اسے یاد کریں اورتلاوت کیا کریں بلکہ اسلئے اتراتاکہ لوگوں کو اس سے خبردارکردے لہٰذا یہ قرآن اشاعت و تعلیم کیلئے نازل کیا گیا ہے نہ کہ قلب محمدؐ میں چھپا کر رکھنے کیلئے ۔چھٹی صفت یہ بیان ہوئی کہ یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس سے معلوم ہوا کہ فارسی ‘اردو‘پشتو‘ پنجابی‘ سندھی ‘بلوچی اور دیگر زبانوں کا ترجمہ قرآن نہیں کہلا سکتا بلکہ اسے ترجمہ ہی کہا جائے گا ترجمہ اور تفسیر کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن قرآن الفاظ اورمعنی دونوں کے مجموعے کا نام ہے صرف ترجمے کا نہیں

۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی آیات کا ترجمہ نماز میں پڑھنے سے نماز نہیں ہوتی اسی طرح ترجمہ پرھنے یا سننے سے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوتی اس آیت اور اس جیسی دوسری آیات کی روشنی میں علمائے اصول فقہ نے اپنی قانونی اور اصطلاحی زبان میں قرآن کی تعریف یوں بیان کی ہے ترجمہ یعنی یہ اللہ کا کلام ہے جوکہ حضرت محمد ؐ پر نازل ہوئی ہے جوکہ نسلاََ بعد نسل‘ طبقاََ بعد طبق اور قرناََ بعد قرن نقل ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے

قرآن مجید کا موضوع انسان ہے یعنی اس حیثیت سے کہ انسان احکام شرعیہ کا مکلف ہے چنانچہ قرآن میں انسان سے متعلق یوں بحث ہوتی ہے کہ انسان کیلئے کون سے عقائد‘ اخلاق اور اعمال مفید ہیں اور کون مضر ہیں ۔ حکمت نزول قرآن یہ ہے کہ ترجمہ یعنی تمام انسانو ں کی راہنماکی اور ہدایت ہے 

تاکہ انکی اصلاح ہو اور وہ دونوں جہانوں میں کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں اگر قرآن کے مطابق زندگی گزاریں تو اگرچہ دنیا کی زندگی عارضی ہے لیکن پھر بھی یہ زندگی خوشحالی سے گزر جائے گی امن و راحت نصیب ہوگی اور آخرت کی زندگی تو واضح ہی ہے در حقیقت قرآن ہدایت اور رہنمائی کیلئے اترا ہے ترجمہ تاکہ کتابیں نازل کرنے اور رسول بھجنے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف حجت باقی نہ رہے رسول ؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ترجمہ یعنی جس بند ے کو قرآن نے میرے ذکر اور مجھ سے دعا کرنے سے مشغول رکھا ہو میں اسے مانگنے والوں سے بڑھ کر عطا کروں گا

اور اللہ کے کلام کی فضیلت تمام مخلوق کے کلام پر ایسی ہے جیسے خود اللہ کی فضیلت اسکے بندوں پر (ترمذی -دارمی) یہاں ایک اور حدیث بھی ہے جسکا ذکر فائدے سے خالی نہ ہوگامسلم کی روایت ہے ترجمہ یعنی جب اللہ کے کچھ بندے اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں یعنی مسجد میں بیٹھے کتاب اللہ کی تلاوت اور تدریس میں مشغول ہوتے ہیں تو ان پر اطمینان قلب نازل ہوتا ہے چنانچہ انکے ذہنوں میں شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی چیز سکونیت کہلاتی ہے

غم و وہم اور مصائب کو آدمی اس وقت بھول جاتا ہے اور اللہ کی چادر رحمت انہیں ڈھانپ دیتی ہے فرشتے کمال محبت سے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ اپنے ان بندوں کا ذکر خیر مقرب ترین فرشتوں سے کرتے ہیں اور انکی تعریف و توصیف فرماتے ہیں۔اور جو کوئی اپنی بد اعمالیوں کیوجہ سے پیچھے رہ گیا ہو اسکا نصب اسے آگے نہیں کر سکتا ۔قرآن کی تلاوت کرنے اور اسکی باہم تدریس کرنے والوں کی یہ فضیلت عمل کے ساتھ مشروط ہے

سنن نسائی، فضائل قرآن کے باب میں حضرت انسؓ سے یہ حدیث منقول ہے ترجمہ بے شک لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا خاندان اور کنبہ ہے نسبی خاندان ہرگز اللہ کی نہیں ہے بعض لوگ اہل اللہ ہیں اور اللہ والے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنکا اوڑھنا بچھونا قرآن بن گیا ہوبس قرآن پڑھتے اور پڑھاتے رہتے ہیں چنانچہ یہ لوگ اللہ کے خاص بندے ہیں اور یہی اولیائے کرام کہلاتے ہیں لہٰذا جتنا وقت بھی قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں لگ جائے غنیمت ہے رسول پاکؐ نے فرمایا:ترجمہ یعنی سب سے بہترین سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا اور سب سے زیادہ سخی انسان تم میں سے وہ ہے

جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے (بخاری ومسلم) ۔جو شخص خود بھی سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے یہ فضیلت اسی کیلئے ہے اور جو کوئی خود سیکھتا تو ہے لیکن سکھاتا نہیں ہے وہ اس حدیث کا مصداق نہیں ہے اور اسکی مثال اس شخص کی ہے جس نے خزانہ جمع کر رکھا ہو لیکن اس میں سے خرچ نہیں کرتا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن خود سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں