قدرتی مناظر کا گلدستہ گاؤں کھوڑی

تحصیل کلرسیداں میں بہت سے ایسے دیہات آباد ہیں جنکی اپنی جگہ ایک خاص تاریخی اہمیت ہے راقم اس سے قبل بھی تحصیل کلرسیداں میں شامل دیہات کا محل وقوع تاریخی پس منظر اہمیت سیاسی‘سماجی علمی شخصیات کا تعارف اور انکے کارناموں کا تزکرہ کرتا آیا ہے تاہم آج یوسی بشندوٹ کے ایک پراسرارگاؤں کا آنکھوں دیکھا نظارہ قلم میں سموکر لایا ہوں یہ چھوٹا سا گاؤں تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل بشندوٹ اور زمینی تقسیم کے لحاظ سے موضع بشندوٹ میں واقع ہے یہ گاؤں محض دس نفوس پر مشتمل ہے۔اگر آپ چوکپنڈوڑی سے بھاٹہ روڈ پرسفر کریں تو راستے میں ایک گاؤں عزیزپور گجراں آتا ہے اس سے تھوڑا آگے طیبہ ماڈل فانڈیشن سکول سے کچھ فاصلے پر ایک کنکریٹ کی نئی بنی روڈ دائیں طرف مڑتی ہے جوکچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کی حکومت میں راجہ ہمایوں کیانی کی کاوشوں سے پختہ کی گئی تھی بھاٹہ روڈ سے تقریبا ایک ڈیڑھ کلومیٹر فاصلے پر شمال کیجانب ایک انتہائی پرکشش قدرتی مناظر کے درمیان گھرا ایک چھوٹا سا گاؤں کھوڑی کے نام سے آباد ہے۔کھوڑ کے لغوی معانی اس گڑھے کے ہیں جس میں کھاد جمع کی جائے یاوہ جگہ جہاں کھجوریں سُکھائی جاتی ہیں جبکہ کھوڑ کے معنی سوراخ یا گڑھا کے بھی ہیں۔گاؤں کا نام تو پہلے بھی سن رکھا تھا مگرجب یہ معلوم ہوا کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں غار بھی موجود ہیں تو پھر گاؤں کو قریب سے دیکھنے کا تجسس بڑھا۔گزشتہ ہفتے 23 اکتوبر 2022 مذہبی وعلمی شخصیت اور شعبہ طب سے وابستہ سید بدرالاسلام گیلانی کے ہمراہ گاؤں کھوڑی کے سفر پر نکلے اور موٹرسائیکل پرمحض چند منٹوں کی مسافت طے کرتے ہوئے ہم چھوٹے سے گاؤں کھوڑی پہنچ گئے چونکہ سید بدرالاسلام گیلانی صاحب کی پہلے ہی اس گاؤں میں بسنے والے افراد سے کافی واقفی شناسائی تھی تو ہمیں ایسی بزرگ شخصیت کی تلاش میں دقت نہیں ہوئی جو ہمیں کھوڑی گاؤں کے پس منظر کے بارے میں معلومات فراہم کرے ہم سیدھے اس گھر پہنچ گئے جنکے جدامجد نے یہ گاؤں آباد کیا تھا یہ گھرحاجی محمد یاسین مرحوم کا تھا جو چند دن قبل ہی 90سال کی عمر میں اس دنیا فانی سے رحلت فرما گئے تھے۔ہم مرحوم کے بھائی محمد یونس صاحب جنکی عمر 76سال ہے ان سے ملے اور انکے بھائی کی وفات پر دعائے مغفرت کی۔محمد یونس صاحب نے پنڈی پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے گاؤں کھوڑی کے پس منظر کے بارے میں گفتگو کی انکا کہنا تھا کہ یہ زمینیں اور جاگیر راجہ محمد خان آف بشندوٹ کی مالکیت ہے جوکہ موضع بشندوٹ کی حدود میں واقع ہیں انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید بتایا کہ میرے جدامجد فرمان علی کو راجہ محمد خان آف بشندوٹ نے اپنی جاگیر اور زرعی زمینوں کی کاشت اور دیکھ بھال کیلیے کھوڑی کے مقام پر 1902میں آبادکیا تھاچونکہ اس دور میں پتھروں کا مکان بنوانے کی بجائے فرمان علی مرحوم نے وہاں مزدوی پر ایک غار بنوا کر اسی میں رہائش اختیار کی تھی اس غار کی مزدوری اس دور میں 9روپے ادا کی گئی تھی غار کی نسبت سے اس جگہ کا نام کھوڑ یا کھوڑی پڑ گیا یہ گاؤں جنگل بیاباں میں ایک ڈھلوانی سطح زمین پر واقع ہے اگر آپ اس گاؤں کی سب سے بلند جگہ پر بھی کھڑے ہوں تو اردگرد کے دیہات نظر نہیں آتے گاؤں کے چاروں طرف اونچی اونچی ٹیکریاں نظر آتی ہیں جن پر درخت اور سبزا اگا ہے آب وہوا تروتازہ اور ماحول بہت پرسکون ہے انسانی زندگی میں چہل پہل ضرور ہے مگر ہر طرف سناٹا اور خاموشی چھائی ہے صرف پرندوں کے چیچہانے کی سریلی آوازیں سنائی دیتی ہیں اگر ہم جغرافیائی لحاظ سے اس گاؤں کے محل وقوع کا احاطہ کریں تو اسکے مشرق میں عزیرپور گجراں مغرب میں بشندوٹ شمال کی جانب موہڑہ نجارجبکہ جنوب کی طرف اس آبادی کا آبائی گاؤں بھاٹہ آباد ہے اس گاؤں میں پینے کے پانی کیلیے گھروں میں پانی کے بور موجود ہیں جبکہ پانی میٹھا اور ٹھنڈا ہے نعکاسی آب کا بہترین قدرتی نظام موجود ہے اور بجلی کی سہولت بھی دستیاب ہے گھروں کی چوکھٹ تک پختہ گلیاں اور عالی شان پختہ گھر بنے ہوئے ہیں اور اب مسلسل نئے مکانات بنتے جارہے ہیں گاؤں کے مکین حصول روزگار کیلیے بیرون ملک بھی مقیم ہیں اور بعض نوکری پیشہ ہیں کئی نے گھروں میں مال مویشی بھی پال رکھے ہیں سب سے دلچسپ بات وہ پراسرار غار ہیں جنکی تعداد تین ہے اور اب بھی بالکل اپنی اصل حالت میں قائم ودائم ہیں زمانے کے موسمی اثرات نے بھی ان غاروں کو متاثر نہیں کیا جسکی اہم وجہ وہاں رہائش پذیر گھرانوں کا ان غاروں کو اپنی حفاظتی تحویل میں لینا ہے انکی اچھی دیکھ بحال کی وجہ سے یہ غار اب تک محفوظ ہیں ایک غار کی چھت سے بارش کی کثرت کی وجہ سے پانی ٹپکتا ہے اس غار کی چھت مرمت طلب ہے گاؤں کی سب سے اونچی جگہ پر قبرستان موجود ہے جہاں قدیم قبروں کے آثار موجود ہیں جو پتھر سے پختہ ہیں اب بھی اس آبادی کا یہی قبرستان ہے اور موجودہ دور کی نئی قبریں بھی موجود ہیں اسی قبرستان سے کچھ فرلانگ پر اس گاؤں میں اس سے قبل پتھروں کی بنی مسجد قائم تھی مگر اب وہاں عالی شان نئی مسجد تعمیر کی گئی ہے اگر آپ کا کبھی بھاٹہ روڈ سے گزر ہوا ہو تو مسجد کا بلند و بالا مینار بھاٹہ رو سے واضح دکھائی دیتا ہے اور اگر ہم اس گاؤں کی سب سے بلند مقام قبرستان کے احاطے میں کھڑے ہوں تو گاؤں بشندوٹ کی مسجد کے مینار کا اوپر والا حصہ نظر آتا ہے یہاں کے مکین بہت مہمان نواز اور ملنسار ہیں اس بے ہنگم زندگی سے بیگانہ ہوکر اس چھوٹے سے گاؤں کھوڑی میں اگر آپ کچھ لمبے کیلیے ٹھہر جائیں اس گاؤں کے خوبصورت اور قدرتی پرفضا مناظر‘صاف ستھرے ماحول کی وجہ سے آپکی روح کو تازگی,دل ودماغ کو سکون اورجسم کو راحت ملے گی اگر آپکو کبھی موقعہ ملے تو آپ ضرور اس گاؤں کھوڑی کا وزٹ کریں امید ہے کہ اس گاؤں کا محل وقوع پراسرار غاراور اردگرد کے قدرتی مناظر آپکی دلچسپی کا باعث بنیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں