قتل‘جیل اور قتل کا سبق

مسعود جیلانی‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
کچھ عرصہ پہلے میں نے موضع رنوترہ کے ایک شخص مصری خان کی داستان تحریر کی تھی جو اس وقت قتل کے مقدمات میں جیل میں ہے اب جبکہ مصری خان جیل میں ہے اسی اثنا میں اس کی بیوی بھی قتل ہو چکی ہے قتل کے

مقدمات بھگتنے والے مصری خان اور اس کی مقتولہ بیوی کی کس کے ساتھ دشمنی تھی یا ہے یہ ایک الگ بات ہے لیکن اس بات سے ہر کوئی اتفاق کرے گا کہ کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے مجرم کی حیثیت سے جنم نہیں لیتا بلکہ اسے معاشرے کے وہ حالات مجرم بناتے ہیں جن میں وہ پرورش پاتا ہے اور جہاں اس کے ذہن کی تربیت ہوتی ہے ریاست کے وجود کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے اندر بسنے والے شہری پر امن اور فتنہ فساد سے پاک زندگی بسر کریں میں نے مصری خان کے متعلق لکھی جانے والی داستان میں وہ سب کچھ تحریر کیا تھا جس کے باعث آج مصری خان کے گھرانے کے تین افراد اور اسکے مخالف لوگوں کے بھی تین افراد قتل ہو چکے ہیں

کون ہو گا جو ان لوگوں کو اس قتل و غارت گری اور دشمنی کے لامتناہی سلسلے سے نکالے گا شاید اس کا جواب

مشکل سے ہی ملے گا مصری خان کے جیل جانے اور اس سے متعلقہ دو افراد کے قتل ہونے سے پہلے مجھے مصری خان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تھا جہاں میری بار بار مصری خان کے بچوں پر نظر پڑتی اور میں یہ سوچتا کہ آج یہ بچے جو اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کوقتل ہوتے دیکھ رہے ہیں یہ آئندہ کیا بنیں گے پھر انہی بچوں کے سامنے ان کی ماں بھی قتل ہوئی اب پتا چلا ہے کہ وہ تین بچے مصری خان کے ساتھ جیل میں رہنے والے ایک شخص ملک اختر حسین سکنہ میال کے گھر زیرِ پرورش ہیں جو منشیات کے مقدمہ میں جیل میں ہے ان بچوں میں سب سے بڑے بچے ملک اظہر علی کی عمرسوا سات سال بچی عائشہ کی عمر5سال جبکہ سب سے چھوٹے بچے محمد دلدار خان کی عمر سوا دو سال ہے ان بچوں نے اپنے سامنے دو مختلف وارداتوں میں اپنی ماں اور بھائی کو قتل ہوتے دیکھا ان کی دشمنی سے منسلک دیگر چار افراد کی کہانی بھی سنتے رہے اور اب جس شخص کے گھر پرورش پا رہے ہیں وہ بھی جیل میں ہے یعنی ان کا سبق الف ب پ کی بجائے قتل ، جیل اور قتل ہی ہے

علم کی پہلی درسگاہ ماں ان کے سامنے قتل ہو کے ختم ہو چکی ہے دوسری جانب والد تربیت کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ بھی معاشرتی ناانٖصافیوں سے بد دل ہو کر جرائم کی بھینٹ چڑھ کر جیل میں ہے ان بچوں کی بستی کے لوگ گناہ سے پاک ان بچوں کو بھی مجرم ہی خیال کرتے ہوئے صرف اپنے بچوں کی بقا کی خاطر گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں یقیناً اس بستی میں حاجی بھی ہوں گے نمازی بھی ہوں گے اللہ کی راہ میں فطرانہ اور زکوٰۃ بھی دیتے ہوں گے اور اپنے اس عمل پر مطمئن ہوں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات بجا لا دئیے ہیں انہیں اس بات کی شاید پرواہ ہی نہیں کہ ان کے سامنے ایک فرد قتل ہوا اور آج یہ تعداد چھ ہو گئی ہے اوران بچوں کا نوشت�ۂ دیوار کیا ہے

یہ بھی نظر آ رہا ہے ان لوگوں کو کوئی دشمنی سے نکالنے کے لئے تیار نہیں ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اس کی بستی کے لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنے ان لوگوں کو دشمنیوں کی اس دلدل سے نکالیں کہیں ایسا نہ ہو کہیں دشمنی کی یہ آگ جس میں کمسن ملک اظہر علی ،ننھی عائشہ اور محمد دلدار خان جل رہے ہیں اس میں باقی لوگوں کے بچے بھی آ جائیں دوسری جانب اگر ریاست پاکستان کو دیکھا جائے تو سنا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اگر والدین میں سے کوئی اپنے بچے کو مار کٹائی کرتا ہے اورتشدد کا نشانہ بناتا ہے

تو ریاست کے ادارے اس سے وہ بچہ لے لیتے ہیں اور بالغ ہونے تک اس کی پر ورش کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں سڑکیں بنانے اور میٹرو بسیں چلا کر ترقی کی شکل پیش کی جاتی ہے ننھے اظہر علی، عائشہ اور محمد دلدار خان جیسے کتنے بچے کس حال میں پرورش پاتے ہیں اس میٹرو والی ترقی یافتہ حکومتوں کو احساس تک نہیں یاد رکھئیے مصری خان کے بچے ہی نہیں اور کئی بچے قیامت کے دن اپنے دور کو خلفائے راشدین کے دور سے تشبہیہ دینے والے حکمرانوں اور اپنے ارد گرد رہنے والے نام نہاد نیکو کاروں کے گریبان پکڑیں ضرورگے ..

اپنا تبصرہ بھیجیں