قبر سے نجات اور خلاصی

پروفیسر محمد حسین
دنیا میں ہر چیز کے بارے میں اختلاف اور جدل و جدال ہوا ہے لیکن موت ایک ایسا اٹل فیصلہ ہے کہ کوئی بھی اس میں اختلاف نہ کر سکا اور سب اس کو مانتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ہمیں اس دار فانی سے کوچ کرنا ہے لیکن وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو ایمان اور

اچھے اعمال والی زندگی گزار کر اس دنیا سے جاتے ہیں رسول پاک ؐ کا راشاد ہے سب سے عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے اور موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری کرے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے اور وہ شخص بے وقوف ہے جو اپنے نفس کی اتباع کرے اور اللہ تعالیٰ پر لمبی لمبی امیدیں باندھے کہ اللہ غفور و رحیم ہے وہ معاف کر دے گا ۔حدیث شریف میں آتا ہے

کہ قبر آخرت کی پہلی سیڑھی ہے جو شخص اس میں کامیاب ہو گیا تو وہ واقعی کامیاب اور سرخرو ہو گیا جو اس میں ناکام ہو تو سمجھ لو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ناکام ہو گیا ۔رسول پاک ؐ کا ارشاد ہے کہ قبرمیں کو ئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ قبر اعلان نہ کرتی ہو کہ میں کیڑے مکوڑے کا گھر ہوں ،میں وحشت کا گھر ہوں جب بھی کوئی ایمان اور نیک اعمال والی زندگی گزار کر قبر میں جاتا ہے

تو قبر اس سے کہتی ہے تیرا آنا مبارک ہو میرے اوپر جتنے لوگ چلتے تھے اس میں سے سب سے زیادہ تو مجھے محبوب تھا اب تو میری بانہوں میں آیا ہے تو اب میرے حسن و سلوک کو دیکھے گا یہ کہہ کر اس کی طرف جنت کا یک دروازہ کھل جاتا ہے اور اس سے اس کی قبر میں خوشبوئیں آتی رہتی ہیں اور جب کو ئی فسق و فجور کی زندگی گزار کر آتا ہے تو اس سے قبر غضبناک ہوکر کہتی ہے تیرا آنا نا مبارک ہو میری پشت پر جتنے لوگ چلتے تھے اس میں تو سب سے بد تر تھا تو میری بانہوں میں آیا ہے تو اب میرا برا سلوک بھی دیکھے گا یہ کہہ کر قبر کے دونوں کنارے اس طرح مل جاتے ہیں کہ اس کی دونوں پسلیاں آپس میں گھس جاتی ہیں

اوراس پر مختلف قسم کے سانپ اور بچھووں کو مسلط کر دیا جاتا ہے ۔قبر سے نجات اور خلاصی کا پروانہ اسی کو ملے گا جو اس کے لئے تیاری کر کے اس دار فانی سے رخصت ہو گا حضور اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا فکر کرو اپنے بارے میں سوچا کرو سڑک پر چلتے ہوئے کسی شخص سے پوچھا جائے کہ آپ کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں اگر وہ جواب میں کچھ نہ بتا سکے تو یقیناًاسے پاگل کہا جائے گا لیکن اپنی عملی زندگی میں ہم سب خود اس پاگل پن کا شکار ہیں نہ اپنی ابتدا کی خبر اور نہ انتہا کی فکر کیا ہم ہمیشہ اس رنگ و نور کی دنیا میں رہیں گے یقیناًنہیں ہم جانتے ہیں کہ ایک دن موت آکر ہمیں ایک اندھیری قبر میں تنہا چھوڑ جائے گی خوبصورت لباس ،لذیز کھانے ،عیش و آرام سب کچھ یہیں رہ جائے گا ہمیں بہت چاہنے والی ہستیاں ہمیں صرف ایک سفید کپڑے میں منوں مٹی کے نیچے تن تنہا چھوڑ جائیں گے وہ لوگ جن کی خوشی کوہم نے اللہ اور رسول ؐ کی خوشی پر ترجیح دی ہو گی

چند دن بعد ہمیں بھول کر دوبارہ دنیا کی گہما گہمی میں مصروف ہو جائیں گے قبر دوسری زندگی کا دروازہ ہے ہم میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی شخص کے لئے اس دروازے کو کھلتے ہوئے اور پھر اس کو بند ہوتے ہوئے دیکھا ہے مگر ہم لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ خود ہمارے لئے بھی یہ دروازہ ایک دن کھلے گا اور پھر اسی طرح بند ہو جائے گا ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ لوگ ایک ایک کر کے روزانہ اللہ کے ہاں پیشی کے لئے بلائے جا رہے ہیں مگر ہم خود اپنے آپ کو اس طرح الگ کر لیتے ہیں گو یا عدالت الہٰی میں حاضری کا یہ دن خود ہمارے لئے کبھی بھی نہیں آئے گا وہ دن آنے والا ہے جب تمام لوگ اللہ کے ہاں اس حال میں جمع کئے

جائیں گے کہ ایک رب العالمین کے علاوہ سب کی آوازیں پست ہو چکی ہوں گی اس دن صرف سچائی میں وزن ہو گا اور اس کے سوا تمام چیزیں اپنا وزن کھو دیں گی یہ فیصلہ کا دن ہو گا ہمارے اور اس کے درمیان صرف موت کا فیصلہ
ہے ہم میں سے ہر ایک شخص ایک ایسے انجام کی طرف چلا جا رہا ہے جہاں ہمارے لئے دائمی عیش ہے یا دائمی عذاب ہر لمحہ جو گزرتا ہے وہ ہم کو اس آخری انجام سے قریب تر کر دیتا ہے جو ہم میں سے ہر ایک کے لئے حقدار ہے ہر بار جب سورج ڈوبتا ہے تو وہ ہماری عمر میں ایک اور کم کر دیتا ہے اس عمر میں جس جس کے سوا آنے والے ہولناک دن کی تیاری کا اور کوئی موقع نہیں ہم کو زندگی کے صرف چند دن حاصل ہیں جن کا انجام ہمیں لا محدود مدت تک بھگتنا پڑے گا

نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا’’ جنت میں ایک کوڑے کے برابر جگہ دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے افضل ہے ‘‘جنت کی نعمتیں ایسی ہیں جو انسان سوچ بھی نہیں سکتا لیکن ہمیں دراصل ان کا پختہ یقین نہیں ہے ورنہ ہم آخرت سے زیادہ کسی چیز کے لئے سنجیدہ نہ ہوتے یہ یقین صرف قرآن پاک پڑھنے سے آ سکتا ہے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا ’’دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے صحابہؓ نے دور کرنے کا طریقہ پوچھا تو آپ ؐ نے فرمایا موت کو کثرت سے یاد کرو اور قرآن پڑھو ‘‘قرآن اس نیت سے پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے ہدائیت نصیب فرمائے اور عمل کی توفیق دے یہ امتحان ہم کو ہر صورت میں دینا ہے اور کامیاب بھی ہونا ہے کیونکہ یہ ناکامی کوء بھی برداشت نہیں کر سکتا(حدیث قدسی) اللہ تعالی فرماتا ہے جو میری طرف ایک ہاتھ بڑھاتا ہے

میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھاتا ہوں جو چل کر آتا ہے میں دوڑ کر آتا ہوں ذرا سوچئے اگر زرا سی بھی غلطی ہو جائے تو اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے شیطان سے کہا نکل جا تو مردود ہے شیطان نے قسم کھا کر کہا اے اللہ اولاد آدم میں سے اکثر کو تو شکر گزار نہیں پائے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ہے کہ انسان کے مرنے سے پہلے تک ان کی توبہ قبول کرتا رہوں گا ۔اگر گناہوں کی بدبو ہو تی تو ہمارے جسموں کے اندر سے اتنی بدبو آیا کرتی کہ لوگ ایک دوسرے کے قریب ہی نہ بیٹھ سکتے اگر کسی کے گناہ ستاروں کے برابر ،درختوں کے پتوں اور ریت کے ذروں کے برابر بھی ہوں گے

تو توبہ کرنے پر بخش دئے جائیں گے اگر انسان سو دفعہ توبہ کر کے توڑ دے اور پھر توبہ کرے تو پھر بھی توبی قبول ہو جائے گی بس شرط اتنی سی ہے کہ موت سے پہلے اپنے رب کو راضی کرے ورنہ بہت مشکل مجھے اس شخص پر تعجب ہے کہ جس کا کفن کا کپڑا بازار میں پہنچ چکا ہے لیکن پھر بھی وہ ہنستا پھرتا ہے اسے کچھ پرواہ بھی نہیں کہ کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور اتنا بھی علم نہیں رکھتا کہ آج دن کو کیا ہو گا اس لئے اپنے آج کے دن کی قدر کرنہ چاہیے آج کی فکر جس نے کر لی وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے اپنے آج کو فراموش کر دیا وہ بھٹک گیا آج موقع ہے سچی اور پکی توبہ کر لیں اس کل کے دھوکے نے کئی انسانوں کو تباہ کر دیا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عاقبت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں