قانونگوساگری میں ابھی تک ایک رتی کاکام بھی نہیں ہوا

آصف شاہ /انتخابات میں کامیاب ہونے اور اکثریت حاصل کرنے کے لئے الیکٹ ایبلزکی بے حد ضرورت ہوتی ہے یہ اعلان الیکشن سے چند دن قبل تحریک انصاف نے کر کے نظریاتی کارکنان کو تھوڑا مایوس کیا پھر ٹکٹس کی باری آئی تواکثر حلقوں میں ان لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دیے ہیں جنکا تعل±ق کسی دوسری جماعت سے تھا یا ماضی میں جیتنے والی پارٹی کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں برادری نظام اور شخصیت پرستی اس قدر غالب ہے کہ ا±میدواروں کو ان کے حلقوں سے نئے چہروں کی مدد سے شکست دینا آسان نہیں ہے۔ ووٹر کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ ا±نکے ا±میدوار کی زہنی اہلیت ا±س قابل ہے بھی جس ایوان میں وہ اپنے ووٹ کہ مدد سے ا±سے بھیج رہے ہیں۔ وہ بس اِس بات پہ راضی ہیں کہ بندہ اپنی برادری کا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ سالوں پہلے عمران خان کی تحریک کا حصہ بننے والے روائتی سیاست دانوں نے عمران خان کو قائل کرلیا ہے کہ اقتدار میں آئے بغیر تبدیلی ممکن نہیں اور عمران خان کوبھی اندازہ ہو گیا تھا،لیکن دوسری طرف عمران خان کے ساتھ رہنے والے بھی الیکٹیبلز سے زیادہ برے ثابت ہو رہے ہیں ،حلقہ این اے 57سے خوش قسمتی سے منتخب ہونے والے صداقت عباسی جو ایک سال گزرنے کے باوجود عوام حلقہ کو طفل تسلیوں کے علاوہ کچھ نہ دے سکے کامیابی کے تین ماہ بعد حلقہ کی عوام کو منہ دکھائی کرنے موصوف کا سارا زور مری کسی حد تک کہوٹہ اور کوٹلی سٹیاں کی جانب دکھائی دیتا ہے جس کی بنیادی وجہ وہاں پر برادری ازم کی مضبوط سیاست ہی ہو سکتی ہے اور شائید وہ اسی خوف کی بنا پر ان علاقوں کی عوام کی آنکھوں کو تارا بناتے نظر آتے ہیں دوسری جانب کلر سیداں اور قانو گو ساگری کی عوام کو ان سے اتنی محبت ہے کہ وہ جب بھی اس کا دورہ کرتے ہیں تو لولی پاپوں کا ایک ٹوکرا بھر کر لاتے ہیں اور سادی عوام ان کی گاڑی کے آگے ناچ ناچ کر اور سیلفیاں بنا بنا کر پاگل ہو جاتی ہے کامیابی کے بعد اس قانو گو کی عوام کوکمیٹیوں کے نام پر ایسا لولی پاپ دیا گیا جس کے اثرات پانچ سال بعد بھی ختم نہیں ہوں گے کمیٹیوں کے لیے منتخب کیے جانے والے مقامی سیاسی لیڈران جو پارٹی کی کامیابی کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں اب مقامی عوام کے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر نظر آتے ہیں دوسری جانب سے ایک سال سے ترقیاتی کاموں کے لیے لسٹوں اور سروے کروانے کے دعووں کے باوجود کاموں کا زیرو سے نیچے کا لیول ہے جبکہ اس کے برعکس مری میں اربوں لگائے گے گزشتہ ایک سال سے قانو گو ساگری کی عوام کے مسائل کو چھٹکیوں پر حل کرنے کے دعویدار ایک اینٹ تک نہ لگا سکے گیس اس قانو گو کی عوام کا سب سے بڑا مسلہ ہے لیکن اس کا زکر خیر تک کرنا کبھی مناسب نہیں سمجھا گیا بلکہ گیس والے ڈھول کو این اے59سے منتخب غلام سرور خان کی ٹیم کے گلے ڈال کر بری الذمہ ہوجانا ہی شائید سیاست اسی کا نام ہے ،دوسری جانب اس قانو گو کی عوام مکمل طور پر ڈکیتوں کے رحم کرم پر ہے آئے روز ڈکیتییوں کی وارداتوں نے عوا م کا جینا محال کر رکھا ہے تھانہ روات میں سیاسی در اندازی کہیں اور سے جاری ساری ہے لیکن جب بھی موصوف کے سامنے سوال رکھا گیا تو جواب آتا ہے میں اس میں مداخلت نہیں کرونگا عوام بھلے جائے بھاڑ میں لٹتی ہے تو لٹتی رہے ہم تو چین کی بانسری بجائیں گے دوسری جانب ترقیاتی کاموں کے حوالہ سے فنڈز کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے جس کا ہر پاکسانی کو ادراک ہے لیکن عوام کو محکمہ پولیس اور پٹواری ازم سے نجات دلائی جا سکتی ہے لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس پر لب کشائی کی جائے ،عوام کوان کی دہلیز پر انصاف دینے کی دعویدار پارٹی کے منتخب ایم این اے نے اپنے دوروں میں ایک ہزار بار یہ دعوی کیا کہ قانو گو ساگری میں کھلی کچہریوں کا اہتمام ہوگا لیکن پتہ نہیں کب ایک سال گزرنے کے باجوداب تک کسی بھی محکمہ کی جانب سے ایک سنگل کھلی کچہری کا انعقاد نہیں کیا جا سکا
قانو گو ساگری کے دورہ کے موقع پر جب بھی ان کے سامنے کوئی سوال رکھا گیا تو انہوں نے فی الفور کہا کہ کھلی کچہری میں اس شعبہ کے متعلقہ افسران اس کا اذالہ کریں گے لیکن نہ لگی کھلی کچہری اور نہ ہوا مسلہ حل موجودہ سیاست پر ایک کہانی یاد آگئی کہ ایک بلی اور چوہے کی آپس میں دوستی تھی وہ روزانہ پکڑن پکڑائی کھیلتے تھے چوہے کو دل میں یہی دھڑکاکہ کسی دن اس کی قربانی لگ جانی ہے وہ اپنی جگہ چوکس تھا ایک دن بلی بھوکی تھی اس کو کوئی شکار نہ ملا جس پر اس نے چوہے کو شکار کرنے کا سوچا ایک جھپٹا مارا لیکن ہوشیار چوہے کا ایک کان اس کے ہاتھ میں آیا اور چوہا بل میں گھس گیا بلی نے بڑی چالاکی سے کہا کہ آو میں تمھارا کان جوڑ دوں لیکن چوہا دونوں ہاتھ باندھ کر بولا کہ بخشو بی بلی چوہا کان کٹا ہی بھلا،، وعدوں کی اتنی بہتات کہ اللہ معافی لیکن ان کے اثرات کب آئیں گے حلقہ کی عوام کے ساتھ ساتھ سیلفیاں لینے والے مقامی لیڈران کو بھی آنکھیں کھولنا ہوں گی بصورت دیگر صداقت عباسی کی سیاست سمیت ان کی سیاست کا بھی کریا کرم ہو سکتا ہے اور صداقت عباسی کو بھی اب خواب دکھانے کے بجائے عوامی مفاد کے کام کرنے ہوں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں