قاضی دلدار اختر قریشی الہاشمی

تحصیل کہوٹہ کے جنوب مشرقی علاقوں میں چار گاؤں ایسے ہیں جنہیں بھورہ کے منفرد ناموں سے منسوب کیا جاتا ہے ان چار گاؤں بھورہ نوروز‘ بھورہ حیال‘ بھورہ نصیب اور بھورہ قبلی کی خوبصورت زمین ناہموار پہاڑی آبشاروں، جھرنوں اور اونچے نیچے ٹیلوں کی وجہ سے اپنی ہیئت میں منفرد مقام رکھتی ہے اسی علاقہ میں بھورہ نصیب اور گف سنگال کے درمیان چھوٹی پہاڑی ”چھمبی” اور اس کے نیچے” بٹری جنج” (روایات کے مطابق ایک بارات کسی بے ادبی کی وجہ سے پتھر کی ہو گئی تھی) موجود ہے۔شخصیات پر علاقہ کی پہچان ہوا کرتی ہیں ان بھوروں میں بھی بیشمار نابغہ روزگار شخصیات پیدا ہوئیں آج جن کی تفصیلات قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر کروں گا وہ قریشی ہاشمی خاندان کے سپوت ہیں دلدار اختر قریشی جن کا قلمی نام قاضی تھا آپ قاضی محمد صدیق کے گھر یکم فروری 1944ء کو ڈھوک داخلی بھورہ نصیب تحصیل کہوٹہ میں پیدا ہوئے۔ آپ پانچ بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑے تھے۔ ابتدائی دینی تعلیم اپنے دادا مولوی لال دین ہاشمی سے حاصل کی جبکہ دنیاوی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول تھوہا خالصہ سے مڈل پاس کی اور رسالپور کینٹ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔آپ 1969 ء میں انجینئر کور رسالپور کینٹ فوج میں بھرتی ہوئے اور 1971ء کی جنگ چھم جوڑیاں کے مقام پر لڑی جس میں آپ غازی رہے۔شاعری کے حوالہ سے آپ محمد انور فراق قریشی ؒ سے متاثر ہو کر لکھنا شروع کیا جبکہ مختلف روایات میں آپ کو سائیں عبدالرحمان فقیر مست سکنہ باغ بھلاکھر کا شاگرد بھی بتایا گیا ہے جبکہ ماسٹر شریف نثار مرحوم بھی سکول کے استاد ہونے کے ناطے سے آپ کو اپنا شاگرد کہتے رہے ہیں جبکہ اس بارے میں آپکی زاتی کوئی بھی رائے موجود نہیں ہے (آپ کے چھوٹے بھائی قاضی حسن اختر جو پوٹھوہاری شعر خوان ہیں اور محمد زبیر قریشی کے شاگرد ہیں ان کے مطابق بھی آپ باضابطہ کسی کے تلامذہ میں شامل نہیں ہوئے)چونکہ آپ شاعری کا شغف رکھتے تھے جبکہ باضابطہ عالم دین تھے آپ نمازِ تراویح اور امامت کے فرائض بچپن سے ادا کر رہے تھے اس لیے آپ کا تعارف کراتے ہوئے آپ کو عالم دین کے ہی تعارف سے جانا جاتا ہے۔اسی وجہ سے مذہبی اجتماعات میں شرکت کی لیکن مشاعروں میں کبھی بھی شرکت نہیں کی۔آپ کی شادی 1977ء میں اپنے خاندان میں ہوئی جس سے تین بیٹے اور ایک بیٹی تولد ہوئی بڑے بیٹے قاضی اکمل تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کہوٹہ میں ملازمت کرتے ہیں۔آپ 1984 ء میں پاک فوج سے ریٹائر ہوئے اور چھ سال تک مرکزی جامع مسجد بھورہ حیال میں جمعہ پڑھایا اور خطابت کی۔1990 ء میں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کہوٹہ میں لیبارٹری اٹینڈنٹ کے طور پر بھرتی ہوئے اور تادمِ مرگ منسلک رہے۔آپ سیاسی طور پر جماعت اسلامی تحصیل کہوٹہ کے جنرل سیکرٹری اور فعال کارکن رہے ہیں اور پری میڈیکل یونین راولپنڈی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری بھی رہے ہیں۔ جبکہ سیاسی دوستوں میں کرنل ظہور اختر (صدر جماعت اسلامی تحصیل کہوٹہ) راجہ شاہد ظفر پیپلز پارٹی، راجہ ظفر الحق مسلم لیگ ن،شاہد خاقان عباسی سابقہ وزیراعظم، کرنل یامین ستی،حاجی جاوید کلرسیداں، راجہ داؤد تھوہا خالصہ،ڈاکٹر محمد عارف قریشی شامل تھے جبکہ شعراء میں ماسٹر دلپذیر شاد، محمد اشرف مجرم، غضنفر علی دکھی، اور باوا جمیل قلندر دوست تھے۔شعر خوانوں میں قاضی عبد الواحد، محمد یسین مانکراہ اور صوفی محمد عارف دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ جبکہ شادی کے دوست راجہ محمد اشرف سکنہ بھورہ قبلی تھے۔ آپ کی وفات 18 اپریل 1996ء ایک حادثہ میں ہوئی اور آپ اپنے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔
نمونہ کلام
دم دتا دم ساز نوں میں
چرچا دم دا ہویا افلاک دے وچ
دتا دم سیں ناہیں دم مارنے نوں
تاں اے دم سمایا سی خاک دے وچ
لے کے دم تے کم عجیب کردا
دم دا غم نہ رہیا بے باک دے وچ
قاضی دم ہمدم تادم رہسی
آ گئی بات جو تیرے ادراک دے وچ

اپنا تبصرہ بھیجیں