کالم

قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی کے آخری ایام

یہ 14 جولائی 1948 کا دن تھا جب اس وقت کے گورنر جنرل محمد علی جناح کو ان کی علالت کے پیش نظر کوئٹہ سے زیارت منتقل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ فقط 60 دن زندہ رہے اور 11 ستمبر 1948 کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ان کی بہن فاطمہ جناح نے تحریر کیا ہے کہ کوئٹہ سے زیارت منتقل ہونے کا فیصلہ جناح کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ ان کی سرکاری اور غیر سرکاری مصروفیات کے باعث کوئٹہ میں بھی انھیں آرام کا موقع بالکل نہیں مل رہا تھا اور مختلف اداروں اور مختلف رہنماؤں کی جانب سے انھیں مسلسل دعوتیں موصول ہو رہی تھیں کہ وہ ان کے اجتماعات میں شرکت کریں اور ان سے خطاب کریں۔زیارت پہنچنے کے بعد بھی انھوں نے کسی مستند معالج سے علاج کروانے پر توجہ نہ دی۔ زیارت پہنچنے کے ایک ہفتے کے اندر ان کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ ان کی زندگی میں پہلی مرتبہ ان کی صحت خود ان کے لیے پریشانی کا باعث بن گئی۔ اب تک ان کا خیال تھا کہ وہ صحت کو اپنی مرضی کے تابع رکھ سکتے ہیں مگر 21 جولائی 1948 کو جب انھیں زیارت پہنچے ہوئے فقط ایک ہفتہ گزرا تھا، انھوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ اب انھیں صحت کے سلسلے میں زیادہ خطرات مول نہیں لینے چاہییں اور یہ کہ اب انھیں واقعی اچھے طبی مشورے اور توجہ کی ضرورت ہے۔فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جوں ہی انھیں اپنے بھائی کے اس ارادے کا علم ہوا تو انھوں نے لاہور کے ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کوبلوالیا۔ڈاکٹر الٰہی بخش 23 جولائی 1948 کو کوئٹہ اور پھر وہاں سے زیارت پہنچے ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کا سرسری معائنہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے سینے اور پھیپھڑوں کے بارے میں صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کے مشورے پر اگلے دن کوئٹہ کے سول سرجن ڈاکٹر صدیقی اور کلینیکل پیتھالوجسٹ ڈاکٹر محمود ضروری آلات اور سازو سامان کے ساتھ زیارت پہنچ گئے۔ انھوں نے فوری طور پر جناح کے ٹیسٹ کیے جن کے نتائج نے ڈاکٹر الٰہی بخش کے ان خدشات کی تصدیق کر دی کہ وہ تپ دق کے مرض میں مبتلا ہیں۔ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کے مرض کے حوالے سے سب سے پہلے فاطمہ جناح کو مطلع کیا اور پھر ان ہی کی ہدایت پر اپنے مریض کو بھی آگاہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کو بتایا کہ انھیں تب دق کا مرض لاحق ہے تو جناح نے جواب دیا: ’ڈاکٹر، یہ تو میں بارہ برس سے جانتا ہوں، میں نے اپنے مرض کو صرف اس لیے ظاہر نہیں کیا تھا کہ ہندو میری موت کا انتظار نہ کرنے لگیں۔اگر اپریل 1947 میں ماؤنٹ بیٹن، جواہر لال نہرو یا مہاتما گاندھی میں سے کسی کو بھی اس غیر معمولی راز کا علم ہو جاتا جو بمبئی کے ایک مشہور طبیب ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل کے دفاتر کی تجوری میں انتہائی حفاظت سے رکھا ہوا تھا، تو شاید ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا اور آج ایشیا کی تاریخ کا دھارا کسی اور رخ پر بہہ رہا ہوتا۔ یہ وہ راز تھا جس سے برطانوی سیکرٹ سروس بھی آشنا نہ تھی۔ یہ راز جناح کے پھیپھڑوں کی ایک ایکسرے فلم تھی، جس میں بانی پاکستان کے پھیپھڑوں پر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو بڑے بڑے دھبے صاف نظر آ رہے تھے۔ ہر دھبے کے گرد ایک بالا سا تھا جس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا تھا کہ تپ دق کا مرض جناح کے پھیپھڑوں پر کس قدر جارحانہ انداز میں حملہ آور ہوچکا ہے۔‘ڈاکٹر پٹیل نے جناح کی درخواست پر ان ایکس ریز کے بارے میں کبھی کسی کو کچھ نہ بتایا۔ تاہم انھوں نے جناح کو علاج اور صحت یابی کے لیے یہ مشورہ ضرور دیا کہ ان کا علاج صرف اور صرف آرام میں مضمر ہے۔ مگر جناح کے پاس آرام کا وقت کہاں تھاجناح کے
پاس وقت کم تھا اور کام بہت زیادہ تھا اور وہ باقاعدہ علاج کا اہتمام کبھی نہ کرسکے۔ماؤنٹ بیٹن نے خاصے طویل عرصے بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’اگر کسی نے مجھے بتایا ہوتا جناح بہت کم عرصے میں ہی فوت ہوجائیں گے تو میں ہندوستان کو متحدہ صورت میں برقرار رہنے دیتا۔ راستے کا پتھر صرف مسٹر جناح تھے، دوسرے رہنما اس قدر بے لوچ نہیں تھے اور مجھے یقین ہے کہ کانگریس ان لوگوں کے ساتھ کسی مفاہمت پر پہنچ جاتی اور پاکستان تاقیامت وجود میں نہ آتا۔دس ستمبر 1948 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح کو مطلع کیا کہ اب جناح کے زندہ بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی اور یہ کہ اب وہ فقط چند دنوں کے مہمان ہیں۔ اسی دن جناح پر بیہوشی کا ایک غلبہ ہوا۔ اس بے ہوشی کے عالم میں ان کی زبان سے بے ربط الفاظ ادا ہو رہے تھے کشمیر انھیں فیصلہ کرنے کا حق دو‘آئین میں اسے مکمل کروں گا‘ بہت جلد مہاجرین انھیں ہر ممکن مدد دو‘ پاکستان گیارہ ستمبر 1948 کو جناح کو سٹریچر پر ڈال کر ان کے وائی کنگ طیارے تک پہنچا دیا گیاکوئٹہ سے کراچی تک کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوا۔ اس دوران جناح بڑے بے چین رہے۔ انھیں بار بار آکسیجن دی جاتی رہی۔ طیارہ جناح کو لے کر سہ پہر سوا چار بجے ماری پور کے ایئر پورٹ پر اترا۔ جناح کی ہدایت پر انھیں لینے کے لیے آنے والوں میں نہ حکومت کا کوئی اہم رکن موجود تھا، نہ ہی ضلعی انتظامیہ ان کی آمد سے باخبر تھی گورنر جنرل کے سٹاف نے انھیں سٹریچر پر ڈال کر فوجی ایمبولینس میں منتقل کیا۔ فاطمہ جناح اور فلس ڈنہم ان کے ساتھ بیٹھ گئیں ایمبولینس نے ابھی فقط چار میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اس کا انجن پیٹرول ختم ہونے کے باعث ایک جھٹکے ساتھ بند ہوگیا۔قائداعظم کی حالت اس قابل نہیں تھی کہ راستے میں بلاوجہ ایک لمحہ بھی ضائع کیا جاتا۔ ڈرائیور 20 منٹ تک انجن کو ٹھیک کرنے کی جدوجہد کرتا رہا۔اور فاطمہ جناح کے حکم پر ملٹری سیکریٹری اپنی کار میں ایک اور ایمبولینس لینے کے لیے روانہ کردئے گئے ادھر ایمبولینس میں شدید حبس کا عالم تھا۔ سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا ہر لمحہ بڑی اذیت میں گزر رہا تھا۔ ڈاکٹر الٰہی بخش بار بار اپنے قائد کی نبض دیکھتے تھے جو بتدریج ڈوب رہی تھی۔اس موقع پر امر انتہا تعجب خیز ہے کہ دارالحکومت میں کسی نے یہ جاننے کی زحمت بھی نہ کی کہ جناح سوا چار بجے ایئر پورٹ پر اترنے کے باوجود ابھی تک گورنر جنرل ہاؤس کیوں نہیں پہنچے، ان کا قافلہ کہاں ہے اور ان کی طبیعت کیسی ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ جناح کی کراچی آمد راز رکھی گئی تھی مگر کیا واقعی حکومت کے اعلیٰ عہدے داران ان کی آمد سے باخبر نہ تھے؟ کیا کسی کو یہ بھی خبر نہیں تھی کہ اسی صبح گورنر جنرل کا خصوصی طیارہ کوئٹہ بھیجا گیا ہے اور شام میں کسی بھی وقت دارالحکومت میں ان کی آمد متوقع ہے‘اس پس منظر میں جناح کی کراچی آمد سے حکومت کے کار پردازوں کی بے نیازی اور بے خبری تصویر کے کس رخ کی نشاندہی کرتی ہے؟ یہ سوال آج بھی لمحہ فکریہ ہے خدا خدا کر کے ایک دوسری ایمبولینس لائی گئی جناح کو سٹریچر پر ڈال کر اس ایمبولینس میں منتقل کیا گیا اور یوں شام چھ بجے کے قریب وہ گورنر جنرل ہاؤس پہنچے۔ ایئر پورٹ سے رہائش گاہ تک کادس میل کا فاصلہ جو زیادہ سے زیادہ بیس منٹ میں طے ہوجانا چاہیے تھا تقریباً دو گھنٹے میں طے ہوا۔ یعنی دو گھنٹے کوئٹہ سے کراچی تک اور دو گھنٹے ایئر پورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس تک‘یہ تکلیف دہ سفر جناح نے اس کسمپرسی کے عالم میں کیا کہ ہماری تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ’گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے کے بعد جناح فقط سوا چار گھنٹے زندہ رہے اور اس دوران وہ تقریباً غنودگی کے عالم میں رہے۔ڈاکٹروں نے انھیں طاقت کا ایک انجکشن لگایا ہوش میں آنے پر جناح سے کہا کہ وہ جلد ہی ٹھیک ہو جائیں گے توجناح نے کہانہیں میں زندہ نہیں رہوں گاجناح نے دو گھنٹے کی پرسکون اور بے خلل نیند کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں
اور آنکھوں کے اشارے سے فاطمہ جناح کو اپنے قریب بلایا اور بات کرنے کی آخری کوشش کی ان کے لبوں سے سرگوشی کے عالم میں نکلا: فاطی خدا حافظ پھر کلمہ طیبہ پڑھا اس کے بعد ان کا سر دائیں جانب کو آہستگی سے ڈھلک گیا اور ان کی آنکھیں بند ہوگئیں۔

admin

Recent Posts

مسرت شیریں کے نام ایک شام

اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…

5 hours ago

*کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: وزیراعظم

راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…

8 hours ago

معذور افراد کو محض ہمدردی کے مستحق نہیں بلکہ بااختیار شہری تسلیم کیا جائے

معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…

9 hours ago

ٹرمپ کا امن منصوبہ: گریٹر اسرائیل کی طرف ایک بڑا قدم

عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…

11 hours ago

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی “زیرو ویسٹ صفائی آپریشن”

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی "زیرو…

11 hours ago

موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت اور بدسلوکی پر مقدمہ درج

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) آئیسکو کی کارروائی موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت…

12 hours ago