151

فیصل قیوم ملک رہنما مسلم لیگ ن

سیاست ایک ایسا دنگل ہے اس میں اترنے کے بعد معلوم نہیں ہوتا کامیابی کب ملے گی پاکستانی تاریخ میں بہت سے سیاست دان بہت محنت اور تگ و دو کے بعد ایک مقام و مرتبہ حاصل کر پاتے ہیں بہت سے کئی سال گزر جانے کے باوجود گم نامہ رہ جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے جو آتے ہی چھا جاتے ہیں ایسے ہی ایک سیاسی شخصیت فیصل قیوم ملک کی ہے جو 1972 میں ملک عبدالقیوم کے گھر کوگھڑاں گاؤں نزد جھٹہ ہتھیال میں پیدا ہوئے یہ چار بھائی جبکہ دو بہنیں ہیں ان سے بڑے دو بھائی اور ایک بہن ہے بڑے بھائی سرکاری ادارے سے ریٹائر ہو کر گاؤں میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں دوسرے بڑے بھائی سوئی ناردرن گیس میں ملازمت کرتے ہیں اور یونین میں بطور نائب صدر کے عہدے پر بھی ہیں تیسرے انکے بھائی جو ان سے چھوٹے ہیں وہ پرائیوٹ بزنس کرتے ہیں ساتھ مسلم لیگ ن راولپنڈی ڈویژن کے انفارمیشن سیکرٹری بھی ہیں اور اس سے چھوٹے بھائی کا انکی سیاست میں اہم کردار ہے انکے والد پوسٹ آفس میں ماسٹر تھے جبکہ انکی والدہ ایک استانی تھی انکی والدہ کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ انکے گاؤں میں 1969 میں جب سرکاری سکول منظور ہوا جسکی اپنی بلڈنگ بھی نہیں تھی تب وہ سکول انکے گھر میں عارضی طور پر قائم ہوا مگر بلڈنگ نہ ہونے کے سبب وہ سکول 1992 تک انکے گھر میں ہی قائم رہا جسکی بعد میں بلڈنگ تعمیر ہوئی اور وہاں شفٹ ہوا مگر اتنے عرصے میں اس سکول میں واحد ٹیچر انکی والدہ تھیں جو یہاں بچیوں کو پڑھاتی تھیں اور یہی وجہ کے اس علاقے کے حوالے سے آج بھی ایک بات مشہور ہے جو علم دوستی کی پہچان بھی ہے کہ یہاں کسی بھی بچی کی تعلیم بی اے سے کم نہیں ہے فیصل قیوم ملک نے ابتدائی تعلیم گاؤں سے ہی حاصل کی اور میٹرک ٹیکنیکل سکول طارق آباد لالکڑتی سے کیا اسکے بعد باقی تعلیم پرائیوٹ حاصل کی کیونکہ میٹرک کے بعد وہ پاکستان نیوی میں چلے گئے تھے مگر کچھ ہی عرصے بعد اپنے والد کی وفات کے سبب نوکری چھوڑ کر واپس آگئے تھے انھوں نے مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں غیر سیاسی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن میں یونین کونسل تراہیہ سے ضلع کونسل کے الیکشن میں حصہ لیا جسکے چند ماہ بعد ہی مارشل لاء لگ گیا جسکے بعد جنرل مشرف کی حکومت بنی تو 2001 کے بلدیاتی انتخابات میں یونین کونسل تراہیہ سے انھوں نے بطور نائب ناظم حصہ لیا جس میں 4 پینل مدمقابل تھے مگر فیصل قیوم ملک وہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے جسکے بعد 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں جب مسلم لیگ ق کی حکومت تھی تو ذرائع کے مطابق فیصل قیوم ملک کی وجہ سے یہاں کی یونین کونسل تراہیہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ایک یونین کونسل جھٹہ ہتھیال اور دوسری یونین کونسل تراہیہ تاکہ انکا ووٹ بنک ٹوٹ سکے بعد میں مسلم لیگ ن کے چوہدری نثار علی خان نے بھی انکو ٹکٹ نہیں دیا یہی وجہ کے انھوں نے خود الیکشن نہیں لڑا بلکہ تیسرے گروپ کو جو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے تھے کو سپورٹ کیا جو بعد میں الیکشن جیت بھی گیا مگر اسکے بعد انھوں نے کبھی الیکشن میں حصہ نہیں لیا 2018 کے عام انتخابات میں جب الیکشن کی گہما گہمی عروج پر تھی اور سبکی نظریں حلقہ این اے 59 اور اس سے ملحقہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تھی کیونکہ یہاں سے سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز شریف کے قریبی ساتھی چوہدری نثار علی خان الیکشن میں حصہ لے رہے تھے تو ایسے میں انجینئر قمر اسلام راجہ کے کہنے پر انھوں نے پی پی 12 سے کاغذات جمع کروائے یہ راولپنڈی ڈویژن میں واحد حلقہ تھا جہاں مسلم لیگ ن کے صرف ایک امیدوار کے کاغذات جمع ہوئے یعنی باقی حلقوں میں ایک سے زائد امیدواروں نے ٹکٹ کے حصول کے لیے مسلم لیگ ن کو درخواست دی مگر اس حلقے میں صرف فرد واحد فیصل قیوم ملک نے درخواست دی جو منظور ہوئی اور انکو ٹکٹ بھی مل گیا 2018 کے عام انتخابات میں جس سے پہلے فیصل قیوم ملک کو سیاسی طور پر کوئی اس طرح سے نہیں جانتا تھا کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ایک نیا چہرہ تھا جو پہلی دفعہ الیکشن میں حصہ لے رہا تھا دوسری طرف الیکشن سے چند ہفتے قبل انکے ایم این اے کے امیدوار کو گرفتار بھی کر لیا گیا جس سے مذید مشکلات میں اضافہ ہوا اور سب سے بڑھ کر مدمقابل ایک منجھا ہوا سیاستدان مگر اسکے باوجود انھوں نے الیکشن لڑا اور چوہدری نثار علی خان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گوکہ وہ الیکشن جیت نہیں سکے مگر اسکے باوجود سخت مقابلہ ہوا مستقبل میں بھی دوبارہ اسی حلقے سے الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں یہی وجہ کے گزشتہ ماہ لندن میں قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے آئے ہیں جہاں ذرائع کے مطابق انھوں نے آمدہ انتخابات میں انکو ٹکٹ دینے کی حامی بھی بھری ہے کیونکہ مشکل وقت میں یہ پارٹی کے ساتھ کھڑے تھے فیصل قیوم ملک ایک ہنس مکھ اور خاموش طبیعت کے مالک ہے غریب پرور انسان ہے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف پروجیکٹ چلا رہے ہیں ان سے انکے ووٹرز کی رسائی انتہائی آسان ہے وہ ہر ایک سے ملتے اور انکے مسائل سنتے ہیں انکا موبائل نمبر انکے زیادہ تر ووٹرز کے پاس موجود ہے جو کسی بھی وقت انکو فون کریں تو وہ رسپانس دیتے ہیں ان سے بات کرتے ہیں فیصل قیوم ملک کے دو بیٹے جبکہ تین بیٹیاں ہیں بڑے بیٹے نے یوکے سے ایم ایس کیا ہے جبکہ بڑی بیٹی این سے اے سے اپنی پڑھائی کر رہی ہے دوسری دو بیٹیاں اے پی ایس جبکہ چھوٹا بیٹا اے لیول کر رہا ہے انکے بڑا بیٹے کا انکی سیاست میں اہم کردار ہے جو انکے ساتھ مخلتف جگہوں پر نظر آتا ہے مستقبل میں انکے بچوں میں سے بھی انکے بیٹے اشرم فیصل سیاست میں آسکتے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں