فیصل عرفان کی”ہوشے“پوٹھوہاریوں کیلئے تحفہ

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی خطہ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل شخصیات جب اپنے خطے کی زبان اور ثقافت سے بے لوث محبت کرنے والے ہوں تو وہ نہ صرف اپنے خاندان اور علاقے بلکہ پورے خطہ کی خوش نصیبی اور شہرت کا باعث بنتے ہیں اگر کسی خطہ ارضی کو ادبی اور تحقیقی شخصیات میسر آ جائیں تو اس خطہ میں تہذیب و ثقافت پر نئے انداز سے کام منظر عام پرآناشروع ہو جاتا ہے جوکہ کسی بھی خطہ اور وہاں بولی جانیوالی زبان کی اہمیت و افادیت میں اضافے کاباعث بنتا ہے۔خطہ پوٹھوہار کے تین معروف نوجوان شاعر، ادیب، کالم نگار اور محققین عبدالرحمن واصف، فرزند علی ہا شمی اور فیصل عرفان اپنی تحقیقی اور ادبی کاوشوں کی وجہ سے خطہ پوٹھوہار کے ادبی اُفق پر روشن ستاروں کی مانند نمایاں ہوچکے ہیں

۔تینوں نے بہت کم وقت میں اپنے معیاری اور تحقیقی کام کا لوہامنوا لیا ہے اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ دوسری زبانوں کے محققین بھی اب ان کے تحقیقی کام کو بطور سند پیش کرنے لگ پڑے ہیں۔ ان تینوں اہم ادبی شخصیات میں سے فیصل عرفان کے علمی،ادبی اور تحقیقی سفر پر بات کی جائے تو خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے کہ اتنی کم سنی میں اتنا بڑا اور معیاری کام عملی طور پہ سامنے لانا کسی کرامت سے کم نہیں
، پوٹھوہاری کتاب ”ہوشے“ کی صورت میں
خطہ پوٹھوہار کے باسیوں کو انہوں نے جو خوبصورت تحفہ دیا ہے وہ یقیناََقابلِ تحسین اور ڈھیروں خراج تحسین پیش کرنے کے لائق ہے۔فیصل عرفان خطہ پوٹھوہار کی سرزمین میں جنم لینے والا وہ بہادر کالم نگار، محقق اور شاعر ہے جس نے پوٹھوہاری زبان کا ہر میدان میں دفاع کیا ہے

، سوشل میڈیا کیساتھ ساتھ پرنٹ میڈیا پر بھی پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان کے فروغ کے لیے اُنکی کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پوٹھوہاری زبان میں لکھی گئی کتاب”ہوشے“ اُنکی تیسری نمایاں
کتاب ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زبان و ادب اور تاریخ کے تحقیقی کاموں مثلاً زبان، گرائمر،روزمرہ
بولے جانے والے محاوروں،پہیلیوں، گیتوں اور لوگ گیتوں پر تحقیق کرناکالجز یاجامعات کے پروفیسرز کا کام ہے مگر فیصل عرفان نے ان شعبوں سے تعلق نہ ہو نے کے باوجود بھی اتنی محنت اور لگن سے تحقیقی کام کیے ہیں جو قابل ستائش ہے۔فیصل عرفان کی پہلی دو تحقیقی کتابی ”پوٹھوہاری اکھانڑتے محاورے“اور ”پر جہھات مہھاڑی انھیں“ ادبی دنیا میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں،

ان کی نئی کتاب ”ہوشے“ اپنے انفرادی اور خوبصورت موضوع کی وجہ سے ادبی حلقوں میں زیربحث اور پسندیدگی کی سند حاصل کر
رہی ہے کیونکہ یہ تحقیقی کتاب پوٹھوہاری لوک گیتوں، سٹھنیوں اور ان کے تاریخی پس منظر اور قدامت پر
مشتمل ہے جنکو ادبی دنیا میں لوک ادب کہاجاتا ہے، لوک ادب کے قاری عوام وخواص دونوں ہوتے ہیں اس لیے اسکی اہمیت کسی دور میں کم ہوئی اور نہ ہی کبھی کم ہوگی، لوک ادب کو بار بار سننے اور پڑھنے کا دل کرتا ہے۔”ہوشے“ میں خطہ پوٹھوہار کے مختلف علاقوں میں شادی بیاہ کے موقع پر
گائے جانے والے لوک گیت(گالیں) اور سٹھ نیاں مرتب کی گئی ہیں،ویسے تولوک گیتوں میں محبت کے جذبات، ہجر اور وصال کی کیفیات تو مشترک ہوتی ہی ہیں مگر اس کتاب میں جو گیت جمع کیے گئے ہیں ان میں پوٹھوہار کا ثقافت، تہذیب،دکھ درد،جذبات،رہتل، اس کے ہنستے بستے دیہات، انکے نظریات، رویے،خوشیاں، غم،پاؤں میں ظالم سماج کی بیڑیاں، ہاتھوں میں محبت کے گجرے، آنکھوں میں جنم لیتی خواہشات کے موتی،زیست کے رستے میں بل کھاتے موڑ،گھر کی دہلیز پہ غربت کے پالے سانپ، سوچوں کے گہرے کنوئیں،جوانی میں پیار محبت کے جذبات،آپس کی نوک جھوک،بے وفائی پہ شکوے،ہجر اور وصل کی کیفیات، دل کے نوحے،اپنوں کے غیروں جیسے سلوک کو میٹھے اور سنہری لفظوں سے سجایا اور گنگنایا جاتا ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ دن بدن جدید ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی نے لوک تہذیب وتمدن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس کے اثرات ہمارے معاشرے اور ہمارے رویوں
پر اپنے نقش جما رہے ہیں، اس ترقی نے ہماری ترجیحات تبدیل کر دی ہیں، خونی رشتوں میں دوریاں پیدا ہوگئی ہیں، ہر بندہ خود غرضی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے،اسی وجہ سے ہمارا اصلی اور قدیمی کلچر، تہذیب وتمدن اور زبان ختم ہو رہی ہے، اس کے فروغ اور بقا کی علمی اورادبی جنگ لڑنا بہت مشکل ہو گئی ہے، لوگوں کا مسئلہ ادب اور زبان کا فروغ نہیں روٹی کپڑا مکان بن گیا ہے، مگر فیصل عرفان نے بہت محنت، محبت اور عرق ریزی
سے بے لوث ہو کر بہت حد تک پوٹھوہاری زبان کو محفوظ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، اس کتاب کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خطہ پوٹھوہارکے دیہات و قصبوں میں پوٹھوہاری لوک گیت اور گالِیں گانے والے گلوکار اور انکے معاون سازندوں کے ناموں کو بھی شامل کرکے انہیں نہ صرف خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ تاریخ کے اوراق میں زندہ جاوید بھی کر دیا ہے۔ کتاب کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات انبساط کا باعث بنتی ہے کہ یہ لوک گیت مختلف موضوعات پر ہیں،مختلف موضوعات پر لوک گیت کی جمع آوری فیصل عرفان کا کارنامہ ہے،

شادی کے دن مقرر ہونے، مہندی، گھڑولی، دولہا بننے کے وقت کے گیت،بارات کی روانگی، دلہن کی رخصتی،ڈولی گھر لے کر آنے کے علاوہ بے شمار موضوعات پر لوک گیت موجود ہیں، یہ لوک گیت اور سٹھنیاں پڑھنے اور سننے میں بہت لطف دیتی ہیں، پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان میں گیتوں کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مقامی ثقافت کی ترجمانی کیساتھ ساتھ محبت اور بھائی چارے کے فروغ کا درس بھی ملتا ہے۔جب کوئی محقق، ادیب یا عام قاری ان گیتوں کا مطالعہ کریگا تو وہ پوٹھوہارکے ماضی اور حال سے شناسائی کرلے گا، ان گیتوں میں پورے پوٹھوہار کی تہذیب وثقافت،یہاں کے باسیوں کے دکھ درد اور خوشیاں شامل ہیں، ان تمام خوبیوں کی وجہ سے یہ کتاب دستاویز بن چکی ہے جو پوٹھوہار،پوٹھوہاری زبان اور فیصل عرفان کی اہمیت اور شہرت میں اضافہ کرے گی۔ فیصل عرفان نے چھوٹی عمر میں ادبی حوالے سے بڑے اہم کام کر لیے ہیں اور پوٹھوہاری زبان و ادب کے لیے سنجیدہ اور اہم کردار ادا کرنے والے لوگوں میں اپناشمار کرا چکے ہیں،ان کی کتاب”ہوشے” خطہ پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے نایاب تحفہ ہے جو فیصل عرفان اور ہمارے خطہ پوٹھوہار کی شناخت کو قائم و دائم رکھے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں