فوڈ انسپکٹر کی ملی بھگت ہوٹل بیماریاں بانٹنے لگے

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحتمند افراد ہی کسی ملک معاشرے کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد زندگی اور سماج کے لئے کسی بوجھ سے کم نہیں ہوتے ریاست نے افراد کی صحت کے حوالے سے باقاعدہ اداروں کو منظم کیا لیکن بدقسمتی سے ارضِ وطن میں اداروں میں موجود وہ اہلکار جنہیں اختیارات دیکھ کر ان ذمہ داریوں پر مامور کیا گیا تھا قانون کو بیوپار بنا کر دولت کے پجاریوں نے ہوس پرستی میں چند ٹکوں کی خاطر اپنے ہی اداروں کے قانون کو پاؤں تلے روند ڈالا یہی وجہ ہے کہ آج تحصیل گوجرخان کے ہر شہر قصبے‘قریے‘ کوچے‘گلی‘محلے میں دو نمبر سے لے کر سو نمبر تک اشیائے خوردنی دستیاب ہیں ستم ظریفی یہ ہے کہ جہاں شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین گوجرخان کی سابق و منتخب قیادتوں کی نا اہلی اور عوامی مسائل سے عدم دلچسپی نے عوام کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیاہے وہاں تحصیل گوجر خان کرپٹ اہلکاروں کے لیے سونے کی چڑیا ثابت ہونے لگی ہے میں آج ایک اہم موضوع پر لاحاصل تحریر کے لئے ورق سیاہ کر رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس کے باوجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی ہماری تحقیق کے مبینہ ذرائع کے مطابق تحصیل بھر کے اشیائے خوردونوش کے مراکز ہوٹلوں، کھا بوں، ڈھابوں سمیت دیگر جگہوں سے لاکھوں روپے بھتہ کی صورت میں لینے کے انکشافات ہیں

تحصیل بھر کے ہوٹلوں اور ڈھابوں سے لاکھوں روپے بھتہ لینے کا انکشاف

عرصہ دراز سے تعینات ملک عزیز نامی مبینہ کرپٹ تحصیل فوڈ انسپکٹر کی طرف سے آج تک کسی بھی ملاوٹ کرنے والے کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کا نہ ہونا لمحہ فکریہ اور سوالیہ نشان ہے عوامی حلقوں کے مطابق ایسی کالی بھیڑوں اور حرام خور اہلکاروں کے خلاف اعلیٰ حکام کی جانب سے کارروائی کا نہ ہونا حالات کی تالاب میں کتی کے چوروں کے ساتھ ملنے کا عکس واضع کرتا ہے تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ تحصیل فوڈ انسپکٹر‘ پنجاب فوڈ اتھارٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی مبینہ کرپشن و نا اہلی سماج دشمن عناصر چند ٹکوں کی ہوس میں موت کا بیو پار کرنے لگے تحصیل گوجرخان خصوصاً مرکزمندرہ اور گردو نواح میں چند ایک کے علاوہ بیشتر برف خانے برف کی صورت میں موت بانٹنے لگے مبینہ چند دن پہلے ایک برف کے بلاک سے کیڑے مکوڑے بر آمد گندہ پانی،زنگ آلود سانچے اور کیڑوں مکوڑوں کی بھرمار،چیکنگ پر مامور اہلکاروں کی آنکھیں سکہ رائج الوقت کی چمک کی چکا چوند نے چندھیا رکھی ہیں تحصیل گوجرخان اور مرکز مندرہ سمیت نواحی دیہات و قصبات میں قائم برف خانوں میں غیر معیاری اور مضر صحت برف بنانے کا دھندہ عروج پربرف خانوں کے مالکان چند ٹکوں کی ہوس میں انسانی زندگیوں سے کھیلنے لگے،اکثر برف خانے بغیر اجازت اوربغیر رجسٹریشن کے قائم ہیں جن میں محکمہ ہیلتھ کے قوائد ضوابط کو جوتے کی نوک پر رکھ کر سر عام انسانی زندگیوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جانے لگا

برف کیلئے استعمال کیا جانے والا پانی تالابوں‘ جوہڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے

مبینہ طور پر معلوم ہوا ہے کہ برف کے لیے استعمال کیا جانے والا پانی تالابوں، جوہڑوں سمیت ویران اور متروک شدہ کنووں سے حاصل کیا جاتا ہے جو کسی طرح بھی محکمہ صحت کے معیار کے مطابق نہیں،برف کو بنانے والے سانچے زنگ آلود اور کارخانوں میں کیڑے مکوڑوں کا راج پایا جاتاہے برف تقسیم کرنے والی گاڑیوں میں بھی کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں کیے جاتے مزید برآں برف خانوں میں کاریگر اور ملازمین بھی ان پڑھ ہونے کی وجہ سے حفظان صحت کے اصولوں سے نا بلد ہیں عوامی سماجی حلقے سابق صدر بار ایسوسی ایشن گوجرخان عامر شفیق قریشی،ممتاز قانون دان راجہ ظھور منظور ایڈوکیٹ،ممتاز کاروباری شخصیت رحمت علی شیخ،سابق چیئرمین گلیانہ میاں عامرالرحمان،سابق وائس چیئرمین چوہدری پرویز اخترسوڑہ‘راجہ صغیر بگرال ایڈوکیٹ، سابق کونسلر چوہدری غلام صابر گل پیڑہ،سابق کونسلر راجہ روئیداد چب،سماجی شخصیت امجد نثار، راہنماء چوہدری علی آکاس گل ارباب بست و کشاد سے سوال کناں ہیں کہ غیررجسڑڈ کارخانوں کے مالکان کو انسانی زندگیوں سے کھیلنے کے لائسنس کون سی اتھارٹی جاری کرتی ہے آج تک کتنے ایسے کارخانوں کو سیل کیا گیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی نا اہلی اور مبینہ کرپشن کے خلاف کیوں کاروائی نہ کی گئی،کیا گوجرخان میں جنگل کے قانون کا راج ہے ہم اچھی شہرت کے حامل اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان مہر غلام عباس ہرل سے بجا طور پر عریضہ نیاز ہیں کہ وہ اس انتہائی اہم معاملہ پر فوری نوٹس لیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں