راجہ شاھد رشید
فوزیہ قمر ڈویلپمنٹ سیکٹر سے ہیں۔ انہوں نے ہیلتھ ایجوکیشن، نادررا، پولیس ریفارمز، الیکشن کمیشن آف پاکستان سے متعلق بہت سارے پراجیکٹس کیے ہیں اور ان پراجیکٹس کے سلسلے میں ان کا چاروں صوبوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوتا رہا۔ یہ مختلف لوگوں سے ملی ہیں، بہت کچھ سیکھا ہے اور اس کے علاوہ سوشل ورک بھی کرتی ہیں۔ اللہ پاک نے انہیں اس قدر عزت و عظمت سے نوازا ہے کہ ماشائاللہ ہر شعبہ زندگی کے لوگ ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ فوزیہ قمر کا پیدائشی تعلق پوٹھوہار دھرتی کے دل علاقہ کلرسیداں سے ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایم اے کیا ہے بلکہ بی ایڈ ہیں اور بفضل اللہ یہ اُردو فاضل بھی ہیں۔ فوزیہ قمر 2013ءسے ریڈیو پاکستان سے منسلک ہیں۔ انہوں نے ریسکیو 1122 سے کچھ شارٹ کورسز کیے اور الحمدللہ بیسٹ والنٹیر کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا اور پھر انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو کے سٹاف کے ساتھ بلوچستان اور سندھ میں جا کر ڈزاسٹر مینجمنٹ پہ لوگوں کو ٹریننگ کرائی ہے۔ بہت سارے سٹوڈنٹس کو بیٹرنگ کرائی ہے۔ مختلف پراجیکٹس کے سلسلے میں ٹیچرز کو ٹریننگ کراتی رہی ہیں اورکچھ پراجیکٹس کے سلسلے میں مختلف سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور جو خواتین سیاست میں ہیں بہت ساری جگہوں پہ ان کی ٹریننگز بھی فوزیہ قمر کراتی رہی ہیں۔ انہوں نے کینڈیڈیٹ فورم اور سیمینارز بھی بہت کرائے ہیں۔ یہ کوشش کرتی ہیں کہ اپنی کمیونٹی کی اپنے لوگوں کی خدمت کر سکیں، کہیں پہ کسی کو مسئلہ ہو تو وہ بھی کوشش کرتی ہیں کہ اس میں جتنا یہ حل کر سکتی ہیں حسبِ توفیق حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ محترمہ ملک سے باہر بھی رہی ہیں اور وہاں پہ بھی کچھ عرصہ کام کیا ہے۔اور پھر وہاں پہ جو تجربات ہوئے وہ یہاں آ کر کوشش کی کہ اپنے لوگوں کو اس سے استفادہ دے سکیں۔ یہ اپنی طرف سے بہت ہی کوشش کرتی ہیں کہ ہر کسی کو فائدہ ہی پہنچائیں۔ یہ اپنے والد گرامی سے بہت زیادہ متاثر تھیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ محترمہ فوزیہ قمر کہتی ہیں کہ مجھ میں اگر کوئی اچھی بات ہے تو وہ میرے والد صاحب کی وجہ سے ہے۔ شعر و ادب سے ان کا دلی لگاؤ ہے جب تک والد زندہ رہے تب تک یہ بہت کچھ لکھتی بھی رہی ہیں۔ اخبارات کے لیے انہوں نے سب سے پہلے جو شروع کیا وہ بچوں کی کہانیوں سے شروع کیا تھا اور یہ نائنتھ کلاس میں تھیں جب ان کی پہلی کہانی اخبار جہاں میں پھول کلیاں ایک موضوع تھا اس میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد یہ مختلف ڈائجسٹ سلسلوں میں اور کالج میگزین کے لیے بھی لکھتی رہی ہیں۔ یہ متعدد آرگنائزیشنز کے ساتھ وابستہ ہو کر خدمتِ انسانی کے کاموں میں ہمیشہ سب سے آگے آگے رہی ہیں۔ میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے ان کی خدمات کا معترف بھی ہوں کیونکہ میرے پاکستان کو ایسی ہی خواتین و حضرات کی ضرورت ہے جو تمام تر نفرتوں کو ترک کر کے، اختلافات کو بھلا کر، بُغض و بخل و تعصب اور سب بغاوتیں‘ شرارتیں چھوڑ کر صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ساری انسانیت کے لیے سوچیں اور خدمت خلق کے کام کریں۔ بابا گُرو نانک نے فرمایا تھا کہ جس کو خدا کا نام میٹھا لگا اس کا دل مسرور ہے، خوشیوں سے بھرپور ہے اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خدمتِ خلق سے بہتر کام کوئی نہیں ہے۔ بلاشبہ دنیا بھر کے مذاہب اور نظریہ ہائے فکر کے نزدیک خدمت خلق ہی ایک انمول و نایاب نیکی ہے۔ عہدِ موجود میں جب معاشرتی بے حسی، سماجی نا انصافیاں و ناہمواریاں ننگی ناچ رہی ہیں تو ایسے میں ایک بے بس انسان بلکہ ساری انسانیت ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر دیکھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے فرحین چوھدری کے الفاظ میں۔
کوئی تو ہو جو سمیٹے یہ درد کے لمحے
کوئی تو ہو جو میری روح کی رہائی کرے
قارئین محترم! مندرجہ بالا شعر پہ آپ غور فرمائیں پلیز اس کو کہتے ہیں کوزے میں دریا بند کرنا۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیں نا کہ یہ شعر ہے کس کا۔؟ جی ہاں بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبہ، شاعرہ اس فرحین چوہدری کا جو عصرِ حاضر میں ادب نگر کی رانی ملکہ ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ بحیثیت انسان و صوفی بڑی ہی پیاری ہیں بلکہ سب سے نیاری ہیں۔ ان سے بات کر کے میں نے اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ شاید ہمیشہ سے ہی اس بات پہ فرحین فاخر رہی ہیں کہ وہ مفتی جی کی متوالی ہیں اور اس من مسیت کی متولی بھی ہے۔ محترمہ فرحین آپی کا یہ حق ہے کہ حق تلفیوں کا ازالہ ہو۔ سارک ایوارڈ یافتہ فرحین بلاشبہ ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ کی بھی مستحق ہیں۔ بس کمی اس میں یہ ہے کہ اُسے غیر کے سامنے جُھکنا آتا ہے اور نہ ہی وہ کبھی کسی کی خوشامد کر سکتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ جو جُھکے غیر در پہ یہ وہ سر نہیں ہے۔ محترمہ فرحین چوھدری کے چند متفرق اشعار حاضر خدمت ہیں۔
نہ جانے کیسے کہاں آسماں بدل جائے
یہ رنگ سارے یہ موسم فضاؤں میں رکھنا
وقت کے ہاتھ نے کچھ طوق بنا ڈالے ہیں
راستے دار کے ہم نے بھی سجا ڈالے ہیں
ہم کو منظور کہاں رسمیں ریاکاری کی
ہم نے کشتی نہیں گھر بھی جلا ڈالے ہیں
درد صحرا میں ہی اب تان لو خیمے اپنے
ریت نے سارے نشانات مٹا ڈالے ہیں
گو بند راستے ہیں سموگی ہے شام بھی
لیکن نویدِ صبح نئی منزلوں کی ہے
