فوتگی والے گھر کھانا‘یوتھ سوسائٹی کی آگاہی مہم

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

اگر غور کیا جائے تو دائرہ کوئی سابھی ہو ایک ایسا بھید لیے ہوا ہوتا ہے کہ جسے سمجھ لیا جائے تو انسان حیرتوں میں ڈوب جاتا ہے۔جیسے دنیا گول ہے ویسے ہی دائرہ جس نکتے سے شروع ہوتا ہے اسی نکتے سے مل کر ختم ہوجاتا ہے۔ہم بحیثت پاکستانی بحیثت مسلمان دائروں کے مسافر ہیں یہ دائرے وہ ہیں جو ہمارے آباؤاجداد نے نکتے سے نکتہ ملا کر بنائے اور جدت آنے کے بعد بھی ہم انہیں دائروں میں محو سفر ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو سمجھے بغیر معاملات کو رِیت ورواج کے تحت چلایا جاتاہے۔جس سے سماج کے غریب طبقات مسائل کا شکار ہیں ایسی ہی روایات میں ایک روایت میت والے گھر سے کھانا کھانے کی ہے جو اخلاقی طور پر انتہائی غیر مناسب ہے لیکن یہاں اسے عادت بنا لیا گیا ہے۔اسلام کی اس حوالے سے تعلیمات بہت واضع ہیں جس گھر میں موت واقع ہوجائے اسلام میں اس گھرانے کی دلجوئی کاحکم دیا گیا ہے مستحب یہ ہے کہ ایسی حالت میں پڑوسی یا عزیز ورشتے دار میت والےگھرانے اور میت پر آئے مہمانوں کو کھانا دیں اس بارے متعدد حدیثوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے لیکن یہاں نماز جنازہ کے بعد سب کے کان اس آواز پر لگے ہوتے ہیں کہ سب لوگ کھانا کھا کر جائیں۔

کچھ عرصہ قبل میں نے اس موضوع پر اپنی ایک تحریر میں بیول یوتھ سوسائٹی سے اس رسم کے خلاف شعوری مہم چلانے کی درخواست کی تھی مجھے خوشی ہے کہ آج یوتھ سوسائٹی بیول نے علاقہ میں اس حوالے سے ایک مہم کا آغاز کردیا ہے رب کائنات سے دعا ہے کہ یوتھ سوسائٹی اس رسم کے خاتمے میں کامیاب ہوجائے۔۔ ابتداء میں یقیناً انہیں مشکلات کا سامنا بھی ہوگا لیکن ارادے مضبوط ہوں تو منزل کو پانا مشکل نہیں ہوتا۔ اہل علاقہ بھی اس قیبح رسم کے خاتمے کے لیے یوتھ سوسائٹی بیول کے شانہ بشانہ کام کریں تاکہ معاشرے کے بے پہنچ اور غریب گھرانوں کو مرگ کے بعد بے پناہ خرچ کے بوجھ سے بچایا جاسکے۔چونکہ یہ رواج سماج میں پوری طرح رچ بس چکا ہے اس لیے اس روایت کی فوری خاتمے کی امید رکھنا عبث ہے۔شاید اسی لیے یوتھ سوسائٹی بیول کی جانب سے آگاہی مہم میں آئے مہمانوں کے لیے روٹی سالن کے بجائے صرف چاول دینے کی اپیل کی گئی ہے۔مقامی لوگوں کو میت کے گھر کھانا نہ کھانے اور چوتھے۔ چالیسویں کا چھوٹا سا پروگرام کرنے کی اپیل بھی شاید اسی لیے کی گئی کہ ان رسموں کو فوری بند کروانا شاید ممکن نہیں۔ہونا یہ چاہیے کہ غیر مستحق یعنی صاحب حیثیت لوگوں عزیزوں و دوستوں کو کھانا کھلانے کے بجائے اس رقم سے مرنے والے کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ جاریہ کے طور کوئی کام کروا دیا جائے۔

کوئی راستہ بنا دیا جائے کہیں پانی کا بندوبست کردیا جائے۔کسی غریب خاندان کی بچی بیاہ دی جائے۔کسی یتیم بچے کی کفالت کردی جائے یہ کام ہمارے مرحومین کے حق میں غیر مستحق لوگوں کو کھانا کھلانے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔لیکن کیا کیا جائے صاحب ثروت لوگ ان قبیح رسموں کو صرف نماد ونمائش کے لیے جاری رکھنے پر عمل پیرا ہیں۔انہیں اپنی امارات اور دولت کی نمائش مقصود ہوتی ہے نہ کہ اسلامی شعار کی پابندی۔ ہم نہیں سوچتے ہمارے چوتھے اور چالیسویں پر جو کھانا غیر مستحق لوگوں کے پیٹ میں جاتا ہے اس سے ہمارے مردوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس لیے ہمارے لوگوں کو اس رسم کے خاتمے کے لیے یوتھ سوسائٹی بیول کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے اور میت والے گھر کھانے کی۔رسم کو صرف دور دراز سے آئے مہمانوں تک محدود کردینا چاہیے۔بلکہ اس کے لیے عزیز رشتے داروں اور اہل۔محلہ وگاؤں کو آگے آنا چاہیے اور آئے مہمانوں کو ملکر کھانا دینا چاہیے اس سے غمزدہ خاندان کو کافی ریلیف مل سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں