فن و ادب کی دنیا کا ستارہ چل بسا

تحریر۔راجہ غلام قنبر/

اک نئی آواز لگا کر جاؤں گا
خاموشی کا محل گرا کر جاؤں گا
ہر کوئی دیکھے گا جس کو رک رک کر
محفل میں وہ رنگ جما کر جاؤں گا
گو موسم پت جھڑ کا ہے عمران مگر
قریہ قریہ پھول کھلا کر جاؤں گا
مندرجہ بالا شعری شاہکار کے خالق سید آل عمران نقوی 23اکتوبر 1974ء کو کوٹ سیداں گوجرخان میں پیدا ہوئے اور 25جون 2020کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے سید آل عمران جوانی کے عالم میں اس بھرے میلے کو چھوڑ کر رخصت ہوتے ہوئے نہ صرف اپنے لواحقین کو سوگوار کر گئے بلکہ فن و ادب بالخصوص پوٹھوہاری فن ادب کی دنیا کو بھی ویران و سوگوار کر گئے چھیالیس سال کے قریب زندگی گزارنے والے سید آل عمران ایسے ایسے سنگ میل اس دنیا میں طے کیے۔ جن کا تعلق اس عالم عمر میں اکثر لوگ سوچ رہے ہوتے ہیں،اک طرف اردو پوٹھوہاری شاعری میں فن کے جوہر دکھائے تو دوسری طرف نثر میں بطور مصنف بھی اپنا لوہا منوایا۔شاعری و نثر نگاری دونوں ہی فن کی ایسی اصناف ہیں جو مکمل توجہ کی متقاضی ہوتی ہیں لیکن سید آل عمران ان دو اصناف پر بھی کام کرتے رہے اس کیساتھ ساتھ ریڈیو‘ ٹی وی پر بطور میزبان وصداکار بھی اپنے فن کے جوہر دیکھاتے رہے پھران تمام تر مصروفیات سے وقت نکال کر سیر و سیاحت کے شوق کو بھی وقت دیتے رہے۔بطور میزبان و صداکار سید آل عمران قارئین کے علاوہ ناظرین و سامعین کا ایک وسیع حلقہ رکھتے تھے۔یہ امر تو روشن ہے کہ کتاب کے قاری ناظرین وسامعین سے کم ہوتے ہیں سیدآ ل عمران نے فن و ادب کی دنیا میں پوٹھوہار اور پوٹھوہاری کی حد درجہ خدمت کی۔اس خدمت کو منظم و موخر کرنے کے لیے تادم آخر ”پوٹھوہاری لینگوئج و کلچرل کونسل“ کے چیئرمین کی ذمہ داریاں بھی بطریق احسن نبھاتے رہے۔کتب کی بات کی جائے تو اردو نعتیہ کلام اورمذہبی شاعری میں ”وہی روشنی ہیں جہاں کی‘مودت‘نسبت اور اردو ماہیے ”موسم روٹھ گئے“ جبکہ پوٹھوہاری شاعری میں ’سدھر“سفرناموں میں ”شہر علم کی خوشبو“دیار نور،خواب سمندر اور خوشبو،دیگر کتب میں ”ہمارا گوجرخان“ ”روشن چہرہ“ عکس اور پوٹھوہاری کہانیاں“ نمایاں ہیں۔سید آل عمران ”سرگ“ کے نام سے اپنا ایک علمی و ادبی رسالہ بھی شائع کر تے رہے۔سید آل عمران کی مختصر ظاہری زندگی اتنی بھرپور اور ہمہ جہت ہے کہ یہ سلسلہ ہائے کتب کی متقاضی ہے جس میں ان کی فنی زندگی اور ثقافت و ادب کی خدمات پر سیر حاسل بحث حاصل بحث کی جائے۔امید کا مل ہے کہ آنیوالے وقتوں میں فن و ادب بالخصوص پوٹھوہاری فن و ادب کے طلاب سید آل عمران کی خدمت کو عوام الناس کے سامنے لائیں گے۔سیدآ ل عمران کی پوٹھوہار و پوٹھوہاری سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بالخصوص ریڈیو ٹی وی کے ذریعے علاقائی اور دیہی علاقوں کے صاحب فن یا دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو عام ناظرین و سامعین سے متعارف کرواتے رہے،اس سلسلہ میں سید آل عمران ذاتی پسند نا پسند یا شناسائی کو اپنے معاملات میں حائل نہ ہونے دیتے جیسے بھی جہاں سے بھی کسی شخصیت کی خدمات کا پتہ چلتا تو خود رابطہ کر کے اس کو ٹی وی پروگرام ”جی کراں“ میں مدعو کرتے۔اس سلسلہ میں راقم قارئین سے اپنا واقعہ بیان کرنا چاہتا ہے اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلہ ایک برسی پر راقم نے دعائیہ پوسٹ سوشل میڈیاپر لگائی جو سید آل عمران کے نظر سے گزری،سید آل عمران نے سوشل میڈیا کے ذریعے موبائل نمبر لیکر مجھے کال کی اور تفصیلات پوچھیں،راقم کی خدمات اتفاق سے سید آل عمران کے معیار کے مطابق پائی گئیں اور یوں راقم پہلی بار کیمرہ کے سامنے آیا اور اسی پروگرام کی وجہ سے سید آل عمران سے بالمشافہ ملاقات ہوئی یہ محبت کا سلسلہ تادم وفات قائم رہا،سید آل عمران نے گزشتہ برس گردوں کی عدم فعالیت کے بعد اپنی زوجہ سے گردوہ لیکر ٹرانسپلاٹ کروایا تھا۔یہ آپریشن کامیاب رہا مگر وقت ملاقات محبوب آپہنچا اور سید آل عمران ہمیں سوگوار کر گئے،سید آل عمران کے سانحہ ارتحال کے فورا بعد معروف نوجوان پوٹھوہاری شاعر راجہ واجد اقبال حقیر نے سید آل عمران کی وفات پر حسرت آیات کو مندرجہ ذیل اشعار میں قلم بند کیا۔
سوہنی صورت تے سیر ت کمال والا
سُچا سچا اک سید ذیشان ٹربا
خوش مزاج تے صاحب عطا ہے سی
اعلیٰ ظرف دا اعلیٰ انسان ٹریا
ٹی وی ریڈیو اتے پوٹھوہا ر بلکہ
سطح مرتفع دا اک نشان ٹریا
چہار پاسے حقیر دھائی مچ گئی
لوکی آکھدے آل عمران ٹریا
آخر میں ایک جملہ ” فن و ثقافت میں کی گئی سید آل عمران کی خدمات ان کا نام رہتی دنیا تک زندہ رکھیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں