فضول رسوم و رواج ۔۔۔فوتگی پر آنے والے مہانوں کو کھانا کھلانا مذہبی فریٖضہ خیال کیا جاتا ہے

کسی فرد یا کسی عذیز کی موت از خود ایک تکلیف دہ سانحہ ہے مگر ہمارے معاشرے میں رسومِ مرگ نبھانا اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور مشکلات کا باعث معاملہ ہے۔ پاکستان کے اکثر علاقوں خصوصاً دیہاتوں میں نج کوئی موت واقع ہو جائے کسی فرد یا کسی عذیز کی موت از خود ایک تکلیف دہ سانحہ ہے مگر ہمارے معاشرے میں رسومِ مرگ نبھانا اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور مشکلات کا باعث معاملہ ہے۔ پاکستان کے اکثر علاقوں خصوصاً دیہاتوں میں نج کوئی موت واقع ہو جائے تو ایلِ خانہ کو میت کو دفنانے سے قبل جنازے میں شرکت کے لیئے آنے والے عزیز و اقارب، محلے داروں اور آخری رسومات میں شریک افراد کے لیئے کھانے کا بندوست کرنا پڑتا ہے۔یہ کیسی ظالمانہ رسم ہے کہ گھرانہ جو پہلے ہی موت کے غم سے دوچار ہے اسکی غمگساری اور میت کی تجہیز و تکفین میں معاونت کی بجائے اسی روز اسے مہمانوں کے طعام کے اہتمام جیسی الجھنوں میں ڈال دیا جاتا ہے پہلے دن کی رسوم سے فراغت کے بعد رسمِ قل، چالیس روز تک ہر جمعرات کو قرآن خوانی کے موقع پر کھانا اور پھر چہلم کے موقع پر تمام مہمانوں کے لیئے خاطر تواضع ایسی رسوم ہیں جو ہر امیر و غریب کو نبھانا پڑتی ہیں اور انہیں مزہبی و معاشرتی فریضہ سمجھ کر ادا کیا جاتا ہے ان رسوم کو کوئی مذہبی جواز ہے یا نہیں یہ ایک علیحدہ و متنازعہ بحث ہے مگر یہ بات یقیناً غیر متنازعہ ہے کہ کوئی بھی مذہب و مسلک فضول خرچی کی اجازت نہیں دیتا ہے، بلکہ ہر معاملے میں میانہ روی اور کفایت شعاری کی تلقین کرتا ہے۔
فرسودہ و فضول معاشرتی رسوم و رواج کی علیحدہ علیحدہ تفصیل بیان کرنا اتنا اہم نہیں جتنا قطعیت کت ساتھ اس حقیقت کا اظہار و اعتراف کرنا کہ جہالت ، پسماندگی اور نمود و نمائش کی علامات ان فضول رسوم و رواج کی تبدیلی یا بتریج خاتمے کے بغیر عصری تقاضوں کے مطابق معاشرتی ارتقاء اور خوشحالی ممکن نہیں۔ (جاری)
(بشکریہ ایم وائی خان ۔ہمارے سماجی روےء) راجہ شاہ میر اختر مانکیالہ اسٹیشن

اپنا تبصرہ بھیجیں