فرح علوی،نثر نگار و شاعرہ

آج جس ادبی شخصیت کا انٹرویو آپ مطالعہ کریں گے اس ادبی شخصیت کا نام فرح علوی ہے اور ان کا تعلق ضلع پاکپتن سے ہے جس ضلع میں اللہ کے مشہور ومعروف ولی میری مراد حضرت بابا فرید الدین مسعودگنج شکرسے ہے کا دربار موجود ہے جہاں پر ہر وقت لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے یہاں دور دراز علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔میں نے بھی جولائی میں دربار شریف حاضری دی۔فرح علوی سے ہونے والی تفصیلی گفتگو زیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ہماری گفتگو کا آغازہوا تو سب سے پہلا سوال تھا آپ کہاں پیدا ہوئیں؟ انھوں نے بتایا کہ میں پاکپتن کے نواحی گاؤں چاہ حکیم
علی محمد میں پیدا ہوئی ،لکھنے کا آغاز میں نے بچپن سے ہی کر دیا تھا، جہاں تک بات لفظ”کیوں“کی ہے تو میں بچپن سے ہی خوددار بننا ضروری سمجھتی تھی جس طرح میں نثر نگاری کو وقت دیتی ہوں اس طرح شاعری کو وقت نہیں دیتی۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے اور کیفیت ہوتی ہے تو شاعری بھی کر لیتی ہوں اور جہاں تک بات ہے شاعری کی اصلاح کی تو ایک دو لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ تو جیسے کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھے بیٹھے تھے۔ سوائے حوصلہ شکنی کے کچھ بھی نہیں کیا۔کامیابی کی جانب تو ابھی قدم بڑھے ہیں۔ ابھی بہت سارے محاذسر کرنے باقی ہیں کامیابی اصل میں وہ ہو گی، جب سارے گاؤں کے بچے میرے قدم سے قدم ملا کر چلیں گے انشاء اللہ العزیز۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہمیں ہر طرح سے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے متعلق عدم برداشت کی شکایت ہے تو سب سے پہلے بڑوں کو نرمی اور صلہ رحمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کتاب سے دوری کی شکایت ہے تو بڑے موبائل کی جگہ اپنے ہاتھوں میں کتاب پکڑیں۔ آج کل کے
بچے بڑوں کو دیکھ کر چیختے چلاتے ہیں تو اس کے لئے بڑوں کو اپنی آواز نیچی رکھنی چاہئے۔ ہاں البتہ اپنی آواز وہاں بلند کریں‘ جہاں نا انصافی ہو رہی ہو، جہاں معاشرے کی بقا کو
نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور جہاں مظلوم کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہ ہو۔ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو اس کے لئے عوامل انتہائی ضروری ہیں
۔میری ابھی تک ایک کتاب شائع ہوئی ہے
جس کا عنوان ہے ”بانس کی باڑ“۔ویسے تو میں نے اچھے سے اچھے مصنفین کو پڑھا ہے، لیکن جس طرح امجد ثاقب صاحب کی تصانیف نے مجھے اپنے حصار میں لیا ہے وہ
خود میں بھی بتانے سے قاصر ہوں۔ ایم الیاس‘ ایم اے راحت‘ محمود احمد مودی‘چوہدری تنویر سرور صاحب، نذیر انبالوی صاحب۔ویسے آج کل جتنے زیادہ وسائل ہیں اتنے زیادہ مسائل بھی ہیں۔ سماجی خدمات سر انجام دینے کے لئے
بہت سارے فلاحی ادارے قائم ہیں، لیکن پھر بھی انتشار اور بد امنی کیوں ہے، کیونکہ ہم میں مقابلہ بازی بہت زیادہ ہے استطاعت سے بڑھ کر خواہشات ہیں، جن کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے ہم احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اس مقابلے بازی میں آکر اپنی خواہشات پوری نہیں کرنی بلکہ بڑے مقاصد کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے۔ ہمیں فیشن کے حصار میں لپٹی یونیورسٹیز نہیں چاہئیں بلکہ ایسے ادارے قائم کرنے ہیں جہاں سے ہمارے نوجوان خودداری کا لباس پہن کر نکلیں۔ آج کا ادیب اپنے منصب سے آگاہ نہیں ہے، معاشرے کے درد کو محسوس نہیں کرتا اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس کے جواب میں گویا ہوئیں خود نمائی۔دیکھیں قلم دوسرا جہاد ہے اور جہاد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے‘ جس میں
انسانیت کی فلاح ہو اور جب اللہ تعالیٰ کے لیے کئے گئے عمل میں دکھاوا آجائے تو وہ ریاکاری بن جاتا ہے اور جو ریاکاری کرتا ہے وہ لوگوں میں اپنا آپ منوانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ کوشش بے سود ہے۔ اسلئے ہمیں اپنے قلم کو جہاد سمجھ کر اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ تنقید کرنے والوں کے لہجے پر منحصر ہے۔ اگر تو تنقید برائے تنقید ہے تو خاموشی اور اگر تنقید برائے اصلاح ہے تو خندہ پیشانی سے اس کی بات کرتی ہوں، کیونکہ انسان ساری زندگی سیکھتا ہے اور اس کے سیکھنے کا عمل کبھی رکنا بھی نہیں چاہیے۔کتاب کی اشاعت سے متعلق گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلاشبہ ہمیں منزل پر پہنچنے سے پہلے بہت سارے محاذ سر کرنے ہوتے ہیں۔ مجھے بھی مالی طور پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وسائل کی عدم دستیابی سمیت بہت ساری مشکلات تھیں جن کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور اپنی کتاب کی اشاعت تک پہنچی، لیکن یہ ابھی منزل نہیں ہے بلکہ یہ منزل کی جانب پہلا قدم ہے۔ میرا جو خواب ہے کہ اپنے گاؤں میں موجود بچوں کو اکھٹا کر کے ایک ادبی قبیلہ بناؤں جس میں
سب امن و سکون سے رہیں
آخر میں قارئین کے لیے تازہ کلام
وہاں دیکھ جہاں عرش ہیاسے دار نہ سمجھ
کڑوا ہے سچ پی لے اسے آزار نہ سمجھ
بن کر تماش بین سب آتے ہیں دکھ بٹانے
ان فتنہ گروں کو اپنا غم خوار نہ سمجھ
تہذیب کے لبادے میں شیطان ہیں چھپے
عریاں اس تہذیب کو صاحبِ کردار نہ سمجھ
اس دشمن کی دوستی ہے سازش کا پیش خیمہ اس بد خواہ کو اپنا طرف دار نہ سمجھ
جو جل رہی ہے سامنے بستی غریب کی
اس آگ کو تو روشنی کے آثار نہ سمجھ
مجھ سے ہے خوف کیسا اے شہرِ خدا تجھے
میرے قلم کو تو تلوار نہ سمجھ

اپنا تبصرہ بھیجیں