پاکستان میں یوں تو سیاسی محاذ پر کوئی نہ کوئی جنگ جاری ہی رہتی ہے مگر گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران پہلے وفاق اور پھر سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سیاسی پہلوانوں نے خوب داؤ پیچ کھیلے گزشتہ دنوں پنجاب کی پگ کی جنگ میں چوہدری پرویز الہی اور حمزہ شہباز مد مقابل نظر آئے عین اُس وقت جب پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کا عمل شروع ہونے والا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی رولنگ کے بعد ایک شخص ان سے چیخ چیخ کر احتجاج کرتا رہا کہ انھوں نے غلط رولنگ دی ہے اور آئین کا آرٹیکل 63 بھی غلط پڑھ رہے مگر وہ بضد رہے اس پر کہ وہ درست پڑھ رہے جس نے چیلنج کرنا وہ کر لے مگر وہ اپنی رولنگ پر قائم ہے وہ شخصیت جو انکے سامنے ڈٹے رہے وہ ہے ایم پی اے محمد بشارت راجہ جنکا تعلق راولپنڈی سے ہے انکے اس طرح احتجاج کرنے کے بعد ہر طرف انکی وہ ویڈیو اور احتجاج کرنا وائرل ہوتا گیا اور لوگوں نے ان کے اس کردار کو بہت سراہا جنھوں نے جب تحریک انصاف اور ق لیگ کے تمام ایم پی ایز مایوس ہو کر بیٹھ گئے تو وہ فرد واحد ڈپٹی اسپیکر کو للکارتے رہے اور اسکے بعد جب یہ کیس سپریم کورٹ میں گیا تو وہاں بھی چیف جسٹس نے انکے احتجاج کا حوالہ دیا کہ وہ ڈپٹی اسپیکر کو بتاتے رہے کہ وہ غلط رولنگ دے رہے مگر وہ بضد رہے اگر ہم بات بات کریں محمد بشارت راجہ کے سیاسی سفر اور زندگی کو تو نظر آتا کہ دھمیال ہاوس ہمیشہ ہی راولپنڈی کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا رہا محمد بشارت راجہ نے 1979ء سے 1987ء تک چیئرمین ضلع کونسل راولپنڈی کے طور پر خدمات انجام دیں اسکے بعد 1987ء سے 1990 کے دوران بطور ممبر ڈسٹرکٹ کونسل راولپنڈی رہے اسکے علاوہ وہ 1990ء سے 1993ء، 1993ء سے 1996ء، 1997ء 1999ء اور 2003ء سے 2007ء کے دوران رکن پنجاب اسمبلی رہے اور اس دوران 1997ء سے 1999ء کے دوران وزیر قانون اور پارلیمانی امور کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دی اسکے بعد 2003ء سے 2007ء کے دوران لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی کے وزیر کے طور پر (قانون اور پارلیمانی امور کا اضافی چارج) اور 2012ء سے 2013ء کے دوران وفاقی وزیر کی حیثیت کے ساتھ مشیر صنعت برائے وزیراعظم پاکستان کے طور پر رہے اب 2018 کے عام انتخابات میں وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حلقہ پی پی 14 سے پانچویں بار رکن صوبائی اسمبلی پنجاب منتخب ہوئے اور وزیر قانون و پارلیمانی امور اور کوآپریٹو کے طور پر کام کرتے رہے انہوں نے 2019ء سے 2020ء کے دوران لوکل گورنمنٹ اور کمیونٹی ڈویلپمنٹ اور سماجی بہبود اور بیت المال کے وزیر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دی ان کا خاندانی پس منظر دیکھیں تو انکے والد بھی 1951ء سے 1955ء کے دوران رکن پنجاب قانون ساز اسمبلی رہے اور 1956ء سے 1958ء کے دوران مغربی پاکستان کی رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے محو عمل رہے اب جب دوبارہ تحریک انصاف اور ق لیگ کی مشترکہ حکومت پنجاب میں آگئی ہے تو ایسے میں دوبارہ انکو کوئی اہم وزارت ملنے کی توقع ہے اور ماضی کی طرح اب بھی راولپنڈی کی سیاست میں دھمیال ہاوس لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے
292