راولپنڈی میں لرزہ خیز واقعہ جرگے کے حکم پر لڑکی قتل، قبر کا نشان مٹا دیا گیا‘چند دن پہلے بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کی خبر نے ملک بھر میں سنجیدہ سوالات کو جنم دیا تھا مگر اس کے فوری بعد وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں ایسا ہی ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا، جس نے شہری علاقوں میں روایتی جرگہ سسٹم کی موجودگی اور قانون کی بے بسی کو ایک بار پھر واضح کر دیا ذرائع کے مطابق، ایک لڑکی کو مبینہ طور پر برادری کے جرگے نے “غیرت” کے نام پر قتل کرنے کا حکم دیا نہ صرف اسے رات کے اندھیرے میں خاموشی سے مارا گیا، بلکہ تدفین کے بعد قبر کا نشان تک مٹا دیا گیا، تاکہ کوئی سوال نہ اٹھا سکے، اور جرم تاریخ کے صفحات سے بھی چھپ جائے مگر ناحق قتل کب چھپتا ہے کبھی ماں کبھی سامنے آجاتا ہے آخر وہی ہوا سچ سامنے آگیا پولیس نے جرگہ کے افراد سمیت قبرستان کے گورکن اور سیکرٹری کو بھی حراست میں لے لیا ہے امید ہے جلد تمام افراد پولیس کی گرفت میں ہونگے اور انکو قرار واقعی سزا ملے گی
غیرت کی تعریف کون کرتا ہے؟
یہ سوال اب ایک تازیانہ بن چکا ہے معاشرے میں “غیرت” کا مطلب مرد کی مرضی، عورت کی خاموشی، اور رشتے کی عزت کو طے کرنے کا اختیار صرف مرد کو دینا بن گیا ہے ان غیر تحریری اصولوں کا شکار وہ لڑکیاں بنتی ہیں، جو اپنی زندگی، پسند یا مرضی کا فیصلہ خود کرنے کی جرات کرتی ہیں “غیرت کے نام پر قتل دراصل طاقت کا وہ مظاہرہ ہے، جو مرد خود کو سماج میں برتر رکھنے کے لیے کرتا ہے، اور اس میں سب سے کمزور فریق یعنی عورت کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے اگر ہم پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے اعداد و شمار دیکھیں تو انسانی حقوق کمیشن کے مطابق صرف 2023 میں غیرت کے نام پر 384 افراد کو قتل کیا گیا جن میں 83 فیصد خواتین تھیں بیشتر کیسز میں قاتل متاثرہ کا قریبی رشتہ دار ہوتا ہے اور اکثر پولیس رپورٹ درج ہی نہیں کی جاتی
جرگہ کلچر قانون سے ماورا مافیا قانون سے بالاتر فیصلہ ساز؟ راولپنڈی جیسے شہری علاقے میں روایتی جرگے کا فیصلہ نافذ ہونا ایک سنگین سوال ہے یہ فیصلے غیر آئینی ہیں فرد کو صفائی کا موقع نہیں دیتے اکثر عورت کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ عمل نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، بلکہ پاکستان کے آئین اور فوجداری قوانین کے منہ پر طمانچہ بھی۔ قانون کی موجودگی اور ناکامی
2016 میں منظور ہونے والے “اینٹی آنر کلنگ بل” کے مطابق غیرت کے نام پر قتل ناقابل معافی جرم ہے مقتول کے وارث اگر قاتل ہوں، تب بھی انہیں معافی کا حق نہیں مجرم کو سزائے عمر قید یا سزائے موت دی جا سکتی ہے مگر زمینی حقائق کیا ہیں؟
ایف آئی آر اکثر درج نہیں ہوتی، پولیس سماجی دباو¿ میں آجاتی ہے، گواہ خاموش کر دیے جاتے ہیں، اور عدالتوں میں مقدمے سالوں کھنچتے ہیں اس سب میں سماجی خاموش بھی بڑا لمحہ فکریہ ہے راولپنڈی کے اس واقعے کے بعد مقامی افراد نے بات کرنے سے انکار کر دیا ایک مقامی
خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا
ِِ”اگر ہم بولیں گے تو ہمارے بچے، خاص طور پر لڑکیاں، خطرے میں پڑ جائیں گی۔ِ“
یہ جملہ ظاہر کرتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل صرف متاثرہ فرد کا مسئلہ نہیں، بلکہ پورے سماج کا اجتماعی خوف ہے
ایسے میں صحافت اور سوسائٹی کی ذمہ داری بنتی کہ ایسے واقعات صرف ایک دن کی “بریکنگ نیوز” بن کر ختم نہیں ہونے چاہئیں اخبارات، ٹی وی چینلز، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو چاہیے کہ وہ گہرائی میں جا کر رپورٹنگ کریں واقعات کا فالو اپ کریں قانونی و سماجی مسائل کو اجاگر کریں متاثرین کو آواز دیں آخر میں سوال آتا کہ ان سبکا حل کیا ہے؟ تو انکا حل ہے کہ غیر قانونی جرگوں کے خلاف کارروائی ، پولیس کو بااختیار اور شفاف بنایا جائے،خواتین کے لیے قانونی تحفظ، ہیلپ لائنز، اور شیلٹر ہومز کا قیام ،نصاب میں انسانی حقوق اور قانون کا شعور شامل کیا جائے ،میڈیا میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جائے
اب خاموشی جرم ہے
غیرت کے نام پر قتل صرف ایک فرد کی زندگی ختم نہیں کرتا، یہ ایک نظریے کو زندہ رکھتا ہے جو کہتا ہے:
“عورت کی جان، مرد کی غیرت سے کم اہم ہے۔” یہ نظریہ تبدیل کیے بغیر ہم معاشرتی انصاف حاصل نہیں کر سکتے اور اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل یہ سانحہ کسی اور کے گھر کی دہلیز پر ہوگا
(تحریر بابراورنگزیب)