تحریر: بابر اورنگزیب چوہدری / پوٹھوہار ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن جو کہ صحافتی تنظیم ہے جس کے قیام کو دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اس صحافتی تنظیم کے قیام کا مقصد نوجوان صحافیوں کی فلاح و بہبود انکو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت میں آنے والے نئے صحافیوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے علاوہ انکو صحافت کے رموز و اوقاف سے روشناس کرنا ہے انکے لیے صحافتی ورکشاپس سمیت مطالعاتی دورے کروانا ہے پوٹھوہار ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے اپنی باڈی کے اختتامی سال پر ایک مطالعاتی دورے کا پلان ترتیب دیا لیکن اس کے لیے جگہ کا انتخاب کرنا انتہائی اہم مراحلہ تھا سب کی رائے لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہماری نوجوان نسل تاریخ سے ناواقف ہے اس لیے تاریخی مقامات کی طرف رخ کیا جائے اور ان مقامات کو اپنے دورے میں شامل کیا جائے چنانچہ قلعہ روہتاس جو شیر شاہ سوری نے کئی سو سال پہلے تعمیر کیا تھا اور ماضی کی ایک عظیم داستاں اپنے اندر سمائے ہوئے ہیں اور برصغیر پاک و ہند میں اسلام کا نام سربلند کرنے والے نڈر و بہادر بادشاہ شہاب الدین غوری کے مقبرے پر جانے کا پروگرام طے پایا پوٹھوہار ینگ جرنلسٹ ایسوسی کا پہلا پڑاؤ مقبرہ شہاب الدین غوری تھا یہ مقبرہ شہاب الدین غوری جی ٹی روڈ سوہاوہ (جہلم) سے اندر دھمیک میں واقع ہے جسکا فاصلہ تقریبا پندرہ کلو میٹر بنتا ہے سلطان شہاب الدین غوری کے مقبرہ تک جانیوالی سڑک کی چوڑائی صرف آٹھ فٹ ہے اور روڈ کی حالت زار بھی قابل رحم ہے مقبرہ کے ارد گرد کوئی آبادی بھی نیں بلکہ میدانی علاقہ ہے اور کاشت کی جانے والی زمینیں ہیں جن میں یہاں ارد گرد کے مکین فصلیں کاشت کرتے ہیں سلطان شہاب الدین غوری 15 مارچ 1206ء کو لاہور راولپنڈی کی جرنیلی سڑک کی اس نواحی بستی دھمیک میں آئے اور نماز عشاء کی ادائیگی کے دوران انہیں شہید کر دیا گیاسلطان شہاب الدین غوری کی قبر کے بارے میں سب سے پہلے جنرل شیر علی خان نے دریافت کیا کہ انکی قبر پاکستان میں اس مقام پر واقع ہے کیونکہ بقول انکے شہاب الدین غوری انکے خواب میں آتے تھے اور انکی قبر کی زیارت بھی انکو متعدد بار خواب میں ہوچکی تھی مگر انکو جگہ کا علم نہ تھا کہ یہ کونسی جگہ ہے چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی محنت کی اور انکی قبر کو تلاش کرنا شروع کر دیا کہ یہ کس جگہ موجود ہے اور آخر انکی محنت رنگ لائی اور وہ دھمیک آپہنچے جنرل شیر علی کو خواب میں جب شہاب الدین کی زیارت ہوئی اور وہ 1985ئمیں جب یہاں آئے تو انہوں نے مقامی لوگوں سے رابطہ کیا،تو معلوم ہوا کہ واقعی اس قبر کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ غوری کی قبر ہے لیکن غوری کے بارے میں جانتے نہ تھے کہ یہ غوری کون ہے جنرل شیر علی جب قبر پر گئے تو یہ وہ ہی قبر تھی جو خواب میں قبر دیکھ چکے تھے اس لیے انھوں نے پہچان لی کہ یہ ہی وہ قبر ہے جسکو متعدد بار انھوں نے خواب میں دیکھا ہے چنانچہ انہوں نے یہاں صفائی کرائی اور قبر کے اردگرد سمیت دیگر کافی جگہ کے گرد خار دار تاریں لگوا دیں اسکے بعد انھوں نے ڈاکٹر قدیر خان کو اس جگہ تب لانے کا سوچا کہ جب بھارت نے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا تو پرتھوی کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان میں دہلی اور اجمیر کا راجہ تھاجسے شہاب الدین غوری نے شکست دی تھی اس کے نام پر میزائل کا نام رکھا گیا تھا چنانچہ انہوں نے پرتھوی میزائل کے جواب میں غوری میزائل بنایا چونکہ ڈاکٹر صاحب کے آباؤاجداد کا تعلق بھی ”غور“ سے تھا، تو انہیں جنرل شیر علی نے اس جگہ اور شہاب الدین غوری کے بارے میں بتایا چنانچہ انہوں نے سلطان کی قبر کا دورہ کیا ان کے ساتھ جنرل شیر علی بھی آئے ڈاکٹر صاحب یہاں آئے تو ان کی آنکھیں یہ منظر دیکھ کر نم ہوگئیں کہ ایک عظیم بادشاہ کی قبر کی یہ حالت ہے اس کے بعد ڈاکٹر قدیر خان نے نہ صرف قبر کے اردگرد جگہ خریدی، بلکہ اس کے ساتھ مدرسے کی جگہ بھی خریدی، جس پر غوری مسجد تعمیر کرائی گئی صدیوں سے یہاں اس قبر کو غوری دی قبر کہا جاتا تھا، لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ غوری کون تھا یہ قبر چونکہ کافی اونچائی پر تھی اور اس کے اردگرد خاصے درخت تھے،اس جگہ کھیل تماشے ہوتے تھے میلے لگتے تھے بیل دوڑ سمیت دیگر بہت سے کھیل یہاں پر منعقد کیے جاتے تھے کیونکہ یہ ایک میدانی اور کھلا علاقہ تھا یوں یہاں پر غوری کے مزار اور مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوااور مزار تیار ہوگیا مزار کے بیرونی داخلی دروازے سے اندر جایا جائے تو مزار اونچائی پر ایک تمکنت سے کھڑا دکھائی دیتا ہے دور سے اگر اسکا نظارہ کیا جائے تو بالکل تاج محل کی طرح دکھائی دیتا ہے مزار اونچی جگہ واقع ہے اس لیے شہاب الدین کی قبر تک سیڑھیاں چڑھ کر پہنچاجاتا ہے سیڑھیوں کے ساتھ بائیں جانب شہاب الدین غوری کی تصویر لگائی گئی ہے مگر بارش اور موسمی اثرات اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کے نقش بھی ماند پڑ رہے ہیں اس کے ساتھ ہی پاکستان کے ایٹمی میزائل جو شہاب الدین غوری کے نام پر منسوب ہے ”غوری” کا ڈیزائن بھی یہاں نسب ہے قبر کے دونوں اطراف شہاب الدین غوری کے بارے میں لکھا ہوا ہے قبر کی سمت کتبے پر سلطان فاتح ہند لکھا ہوا ہے جس پر انکی آخری آرام گاہ کے ساتھ ساتھ تاریخ شہادت 15 مارچ 1206 بھی درج ہے رپورٹ کے مطابق افغانستان کے علاقے غور سے یہ عظیم فاتح ہندوستان کا سفر کرتا ہوا آیا اور نہ صرف یہاں بلکہ برصغیر پاک وہند میں اسلامی راج قائم کیا اس کے لیے کئی جنگیں لڑی لیکن بدقسمتی سے اب انکے مزار کا بیرونی حصہ چاروں جانب سے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خراب ہونا شروع ہوچکا ہے یہ مزار جو 1995ء میں تعمیر ہوا مگر اسکو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کر دیاگیاتھا مگر مزار کی حالت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ واقعی اسکو آثار قدیمہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا حکومت کی عدم دلچسپی اور محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت کے سبب آج بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شہاب الدین غوری کا مزار پوٹھوہار کی سرزمین جہلم کے قریب واقع ہے جب ہمارا وفد انکے مزار کی جانب بڑھ رہا تھا تو راستے میں گزرتے ہوئے ارد گرد موجود دیہاتوں کے باسی بھی تعجب سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون ہیں جو مزار کی جانب جارہے کیونکہ اسکی بنیادی وجہ مزار پر کسی سیاح کا آنا جانا نہیں نہ ہی راستے میں کسی جگہ کوئی بورڈ یا تحریر نظر آئی کہ مزار اس طرف ہے یہ تو اللہ بلا کرے گوگل کا جس نے ہمیں دربار تک پہنچا دیا مزار میں جانے اور آنے تک کوئی بھی سیاح یا شخص وہاں پر نہیں آیا اور مزار کی حالت زار سے لگ بھی یہی رہا تھا کہ جیسے سالہا سال بعد ہی کوئی سیاح یا زائرین کوئی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا یہاں آتا ہوگا حکومت کو اور خاص طور پر محکمہ آثار قدیمہ کو چاہیے کہ ان کے مزار تک کی سڑک کو چوڑا کیا جائے اور کارپٹ روڈ بنائی جائے تاکہ مزار پر آنے والے آسانی سے آسکیں اس کے علاوہ سفری سہولت بھی دی جائے جو جی ٹی روڈ سے مزار تک ہو تاکہ جو سیاح آنا چاہتے یا جنکو اس جگہ کا علم نہیں وہ بغیر کسی سفری پریشانی سے آسانی سے آسکیں اور اس تاریخی شخصیت کے مزار پر حاضری دے سکیں اس کے علاوہ مختلف جگہوں پر جی ٹی روڈ سمیت مزار کے راستوں پر بل بورڈ اور سائن بورڈ آویزاں کیے جانے چاہئیے تاکہ ہر ایک کو نہ صرف مزار کے بارے میں علم ہو بلکہ اس سے آنے والے سیاحوں کو بھی جو راستہ معلوم نہ ہونے سے دشواری کا جو سامنا کرنا پڑتا اس سے بھی بچت ہو جائے گی پوٹھوہار ینگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے وفد نے حقیقی معنوں میں اس دورے سے بہت کچھ سیکھا اور تاریخ کے وہ اوراق جو کئی بھول گئے تھے دوبارہ یاد ہوگئے اب اس وفد کا اگلا پڑاؤ قلعہ روہتاس تھا قلعہ کے اندر کیسے لوگوں نے قبضہ کیا اور کتنے سالوں سے رہ رہے ہیں اس سب کے بارے میں اگلے شمارے میں تفصیل سے لکھوں گا۔
586