غلام سرور خان کا سیاست میں کامیابی کا سفر

راولپنڈی اور خطہ پوٹھوہار کی سیاست میں چند بڑے سیاسی ناموں میں جنھوں نے سیاسی میدان میں اپنی ساکھ اور پہچان بنائی ان میں ایک نام پاکستان تحریک انصاف کے رہنما غلام سرور خان کا ہے غلام سرور خان جنکا گھرانہ ایک زمین دار ہے انکے خاندان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے مگر غلام سرور خان نے سیاست میں آکر محنت کی اور پاکستانی سیاست میں اپنا لوہا منوایا یہ 13 اکتوبر 1955 کو محمد حیات خان کے گھر ٹیکسلا کے گاؤں پنڈ نوشہری خان میں پیدا ہوئے انکی دو بہنیں اور یہ تین بھائی ہیں انکے دونوں بھائی بھی ایم پی اے رہے ہیں انھوں نے گریجوایشن پنجاب یونیورسٹی سے کی غلام سرور خان نے اپنی سیاست کا آغاز 1979 میں ضلع کونسل کے الیکشن سے کیا جس میں وہ بطور ممبر ضلع کونسل کامیاب ہوگئے اور اسی نشست پر 1983 کے انتخابات میں اپنے بھائی خان صدیق خان کو الیکشن لڑوایا جو کامیاب ہوئے غلام سرور خان نے 1985 کے عام انتخابات میں حصہ لے کر ملکی سیاست میں قدم رکھا اور راولپنڈی پی پی 5 سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑا تو پہلی ہی دفعہ ایم پی اے منتخب ہوئے اسکے بعد 1988 کے عام انتخابات میں انھوں نے دوبارہ صوبائی اسمبلی کی اسی نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اس وقت انھوں نے 43 ہزار سے زائد ووٹ لے کر اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار محمد کمال کو شکست سے دوچار کیا انھوں نے پہلی دفعہ قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن 1990 کے عام انتخابات میں لڑا اس وقت انھوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ 40 سے پیپلز ڈیموکریٹک آلائنس (پی ڈی اے) کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور 63 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے مگر انکو اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار چوہدری نثار علی خان سے شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر ان ہی انتخابات میں وہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی الیکشن لڑ رہے تھے اس پر وہ تیسری مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر 36 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدوار محمد کمال کو شکست دی اسکے بعد انھوں نے 1993 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن حلقہ این اے 40 سے لڑا جس میں انھوں نے 64 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے مگر انکو ایک مرتبہ پھر چوہدری نثار علی خان سے شکست کا سامنا کرنا پڑااس بار پھر انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی پی 5 سے حصہ لیا اور 40 ہزار سے زائد ووٹ لے کر مسلم لیگ ن کے امیدوار دلدار خان کو شکست دی اور چوتھی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر جیتنے میں کامیاب ہوئے یہ اس دوران پنجاب کابینہ کا حصہ رہے اور صوبائی وزیر برائے زکوۃ و عشری بنے اس دوران بعد میں وہ 1994 سے 1996 تک صوبائی وزیر برائے صحت بھی رہے ہیں اسکے بعد انھوں نے 1997 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا مگر اس دفعہ وہ 26 ہزار سے زائد ووٹ لے سکے لیکن انکو مسلم لیگ ن کے ملک عمر فاروق سے شکست کا سامنا کرنا پڑا غلام سرور خان پہلی دفعہ قومی اسمبلی کی نشست پر 2002 کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے اور این اے 53 سے 67 ہزار کے قریب ووٹ لے کر مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری نثار علی خان کو شکست دے کر کامیاب ہوئے ان ہی انتخابات میں انھوں نے بطور آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی کی نشست حلقہ پی پی 8 سے بھی الیکشن لڑا تھا اور وہ صوبائی اسمبلی کی اس نشست پر بھی 22 ہزار کے قریب ووٹ لے کر متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) کے امیدوار کو شکست سے دوچار کیا مگر اس دفعہ انھوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر حلف اٹھایا اور صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی جس پر بعد میں ضمنی انتخابات ہوئے اس دوران 2004 میں شوکت عزیز کے کابینہ میں یہ پہلی دفعہ وفاقی وزیر برائے لیبر و اقتصادی پاور بنے اس کے بعد انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر 2008 کے عام انتخابات میں این اے 53 سے حصہ لیا گو کہ اس وقت انکے قریبی لوگوں نے انھیں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا مشورہ دیا مگر غلام سرور خان کا ماننا تھا کہ وہ جس پارٹی کے ساتھ اقتدار میں رہے اسکے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑیں گے انھوں نے ان انتخابات میں 49 ہزار کے قریب ووٹ لیے لیکن انکو مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری نثار علی خان سے شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر اسی حلقے کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر انکے بھائی شفیق خان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر ایم پی اے منتخب ہوئے اس کے بعد انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کیا اور 2013 کے عام انتخابات میں انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر این اے 53 سے حصہ لیا اور ایک لاکھ دس ہزار سے زائد ووٹ لے کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے انکے بھائی خان صدیق خان انکے ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہے تھے وہ بھی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے مگر خان صدیق خان 2016 میں وفات پاگئے جنکی خالی نشست پر ضمنی انتخابات ہوئے تب مسلم لیگ ن کی حکومت ہونے کے باوجو د ٹف ٹائم دیا مگر الیکشن جیت نہ سکے اس کے بعد انھوں نے 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر دو قومی اسمبلی کے حلقوں این اے 63 اور این اے 59 سے الیکشن لڑا اور دونوں حلقوں سے آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر بنے بعد میں انھوں نے حلقہ این اے 59 سے حلف لیا اور این اے 63 کی سیٹ چھوڑ دی جس پر بعد میں ضمنی انتخابات کے دوران انکے صاحبزادے منصور حیات خان منتخب ہوئے جب 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنی حکومت بنائی تو وزیر اعظم عمران خان نے 18 اگست کو اپنی کابینہ کا اعلان کیا جس میں 20 اگست کو غلام سرور خان نے بطور وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم حلف اٹھایا اس کے بعد مارچ 2019 میں انکو وفاقی وزیر برائے ایوی ایشن کا قلمدان دے دیا گیا جب عمران خان کے خلاف 10 اپریل 2022 کو بطور وزیراعظم عدم اعتماد کا ووٹ ڈالا گیا اور وہ اپنے عہدے سے ہٹے تب تک غلام سرور خان وفاقی وزیر برائے ہوا بازی کے عہدے پر تھے غلام سرور خان پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی عہدوں پر بھی رہے ہیں جن میں مرکزی سینئر نائب صدر اور شمالی پنجاب کا صدر بھی رہ چکے ہیں گلگت بلتستان کی تنظیم نو کرنے میں بھی انکا اہم کردار رہا ہے انکی روز مرہ کی روٹین ہے کہ وہ صبح سویرے اٹھ کر اپنی زمینوں پر واک کے لیے جاتے ہیں جہاں سے وہ دن دس سے گیارہ بجے واپس آکر اپنے ڈیرے پر موجود ہوتے ہیں اور آنے والے لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں ظہر کے بعد وہ حلقے میں نکل جاتے ہیں جہاں وہ لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں غلام سرور خان تک انکے ووٹرز کی رسائی انتہائی آسان ہے وہ ہر ایک سے ملتے اور اسکے مسائل سنتے ہیں یہی وجہ کے لوگ انکو پسند کرتے ہیں غلام سرور خان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا منصور حیات خان ہے جو ممبر قومی اسمبلی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں