غزہ کی سرزمین اس وقت ظلم، بربریت اور نسل کشی کی بدترین مثال بن چکی ہے۔ نہتے بچوں، عورتوں اور بزرگوں پر بمباری، بھوک اور پیاس کی صورت میں اجتماعی قتلِ عام ہو رہا ہے۔ مگر افسوس! اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کے ادارے، اور عالمی طاقتیں بےحسی کی چادر اوڑھے خوابِ غفلت میں ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“وما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان…”
(سورۃ النساء: 75)
“اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بےبس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں…”
کیا غزہ کے وہ بچے، جو پانی کے بغیر تڑپتے دم توڑ رہے ہیں، وہ عورتیں جو اپنے معصوم بچوں کی لاشوں سے لپٹی بین کر رہی ہیں، وہ بوڑھے جو دوائی کی جگہ موت پی رہے ہیں… کیا وہ اس آیت کا مصداق نہیں؟
بدقسمتی سے امت مسلمہ آج فروعی اختلافات، قوم پرستی اور سیاسی مصلحتوں کی ایسی دلدل میں پھنس چکی ہے کہ مظلوم کی آواز پر لبیک کہنے کی سکت بھی کھو چکی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
“المسلم أخو المسلم، لا یظلمہ ولا یسلمہ”
(صحیح بخاری)
“مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے؛ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے دشمن کے حوالے کرتا ہے۔”
غزہ کے مسلمانوں کو تنہا چھوڑ دینا کیا “اسلامی بھائی چارے” کے دعوے کی نفی نہیں؟ مسجد اقصیٰ، قبلہ اول، جسے نبی ﷺ نے ایمان کا حصہ قرار دیا، آج صہیونی تسلط میں سسک رہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“لا تُشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد…”
“سفر صرف تین مساجد کی طرف کیا جائے: مسجد الحرام، میری یہ مسجد (مدینہ)، اور مسجد اقصیٰ۔”
(صحیح بخاری)
آج مسجد اقصیٰ پکار پکار کر کہہ رہی ہے:
“اے امتِ محمد ﷺ! کہاں ہو تم؟”
امت مسلمہ کو اب ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ یہ وقت مذمتی بیانات اور نمائشی اجلاسوں سے آگے نکل کر عملی اقدامات کا ہے۔ اگر ہم نے قبلہ اول کی آزادی کو اپنی اجتماعی ذمہ داری نہ سمجھا تو ہمارا ایمان مکمل کیسے ہوگا؟
اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتا ہے:
“یا أیها الذین آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا…”
(آل عمران: 200)
“اے ایمان والو! صبر کرو، ثابت قدم رہو، محاذ پر ڈٹے رہو، اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔”اب ہر مسلمان، ہر حکمران، ہر عالمِ دین، ہر صحافی، اور ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرے، عملی اقدامات کی تحریک دے، اور ظالم کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائے۔
نتیجہ:فلسطین کا مسئلہ صرف ایک قوم یا زمین کا نہیں، یہ پوری امت مسلمہ کا دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ قبلہ اول کی آزادی اب محض نعرہ نہیں، ایمان کا تقاضا بن چکی ہے۔ اگر ہم نے آج قدم نہ اٹھایا، تو آنے والی نسلیں ہمیں کوسیں گی اور ربِ کائنات کے سامنے ہم خالی ہاتھ ہوں گے۔
(طارق محمود آفاقی)