غزوۂ ہند: عنقریب رونما ہونے والا ہے؟

طالبان نے امریکہ کا بھگا کر افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے اب وہ مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان سے آزاد کرانے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں ہندوستان نے کشمیر میں سیاحوں پر حملہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ غزوہ ہند عنقریب رونما ہونے والا ہے۔

غزوہ ہند یا حدیثِ غزوہ ہند ایک اہم اسلامی پیشین گوئی ہے جو براہِ راست پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے منسوب ہے۔ اس کا ذکر مختلف احادیث میں آیا ہے اور برصغیر کے مستقبل میں پیش آنے والے ایک عظیم معرکہ کو بیان کیا گیا ہے۔

احادیث میں اس جنگ کو ایک ایسا جہاد قرار دیا گیا ہے جو نہ صرف فتح پر منتج ہو گا بلکہ اس میں شریک ہونے والوں کو مغفرت اور جنت کی بشارت بھی دی گئی ہے۔

غزوہ ہند سے متعلق جو روایات مروی ہیں، ان میں نمایاں نام حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت ثوبانؓ کا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ “میری امت کا ایک لشکر ہند کی طرف روانہ ہوگا، اگر میں اس میں شریک ہوا اور شہید ہو گیا تو یہ میرے لیے فخر ہو گا اور اگر زندہ لوٹا تو اللہ کی طرف سے مغفرت کا پروانہ حاصل کر کے آزاد ابو ہریرہ کہلاؤں گا۔”(مسند احمد، السنن المجتبیٰ)۔

اسی طرح حضرت ثوبانؓ کی حدیث ہے کہ “میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے دوزخ سے محفوظ کر دیا ہے، ایک وہ جو ہند پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔”
(مسند احمد، السنن الکبریٰ)۔

ان احادیث کی صحت پر محدثین نے عمومی طور پر اعتماد کیا ہے اگرچہ ان میں بعض کو “حسن” اور بعض کو “ضعیف” بھی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر ان احادیث کو مستند واقعاتی پیشین گوئی کے طور پر قبول کیا جاتا ہے،

جن کا تعلق نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے زمانے سے بعد کے ادوار میں پیش آنے والے حالات سے ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ غزوہ ہند کا ظہور یا تطبیق کب ہوگا؟ یہ سوال کہ آیا غزوہ ہند کی پیشین گوئی کسی تاریخی واقعہ پر منطبق ہو چکی ہے یا آئندہ کسی بڑے واقعے کی پیشن گوئی ہے،

مختلف مکاتب فکر میں زیرِ بحث رہا ہے۔بعض مورخین غزوہ ہند کی تطبیق محمد بن قاسم کے سندھ میں داخلے (711ء) پر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ وہی لشکر تھا جسے نبی کریم ﷺ نے پیشین گوئی میں بیان فرمایا تھا۔ اس مؤقف کو ابن کثیر جیسے مؤرخین نے بھی اپنی کتب میں جگہ دی۔

محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور تیمور کے حملوں کو بھی بعض علماء و مؤرخین نے “غزوہ ہند” کی ایک کڑی قرار دیا۔ یہ تمام حملے ہندوستان میں اسلامی سلطنتوں کے قیام کا باعث بنے۔

موجودہ دور میں بعض علماء اور مفکرین غزوہ ہند کو کشمیر، بھارت، افغانستان و پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت و پاکستان کے درمیان مذہبی بنیاد پر کشیدگی، جنگیں اور کشمیر کا قضیہ دراصل اسی غزوہ ہند کا تسلسل ہیں۔

غزوہ ہند کو بعض طبقات “مقدس جنگ” کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ بعض اسے سیاسی استعمار و نظریاتی جدوجہد کے تحت پرکھتے ہیں۔ فقہی لحاظ سے جہاد کی شرائط پر علمائے کرام نے زور دیا ہے

، نیت، عدل، حکومتی قیادت اور جارحیت کے رد میں یہ اقدام اٹھایا جائے گا۔ بعض علماء اس حدیث کو بنیاد بنا کر کسی خاص گروہ کی عسکری کارروائی کو غزوہ ہند سے تعبیر کرنے کو غلو اور سیاسی اغراض پر مبنی تعبیر قرار دیتے ہیں۔

برصغیر کے مسلمانوں کے تہذیبی شعور میں غزوہ ہند کی پیشین گوئی ایک اہم علامت رہی ہے۔ اس کے وقوع پزیر ہونے سے اسلامی فتوحات کو تقدیر کا حصہ قرار دینے میں مدد ملے گی۔ دینی شعور، شہادت اور مغفرت کے تصورات کو مہمیز بخشا جائے گا۔ مذہبی شناخت اور ملی وحدت کو استوار کیا جائے گا۔

آج جب برصغیر میں اسلاموفوبیا، اقلیتوں پر مظالم اور کشمیر جیسی متنازعہ ریاست کا معاملہ عالمی سطح پر موجود ہے، غزوہ ہند کی حدیث مسلمانوں کے لیے دعا و عمل کی تحریک بن سکتی ہے نہ کہ تشدد و نفرت کی۔ اس کا صحیح مفہوم مذہبی بیداری، عدل و انصاف، اور روحانی فتوحات کی طرف دعوت دیتا ہے۔ بعض انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے اس حدیث کو سیاسی ایجنڈوں کے لیے استعمال کرنا درحقیقت حدیث کی توہین ہے۔

غزوہ ہند کی یہ پیشن گوئی ایک جہادی دعوت ہے۔غزوہ ہند کی حدیث نہ صرف ایک پیشن گوئی ہے بلکہ مسلمانوں کے لیے فکری بیداری، دینی استقامت، اور روحانی قربانی کا پیغام بھی ہے۔ اس کی تطبیق ماضی، حال اور مستقبل میں مختلف انداز سے ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔

اس حدیث کا مقصد مسلمانوں کو ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا، جہاد بالنفس، جہاد بالعلم اور جہاد بالعدل کی دعوت دینا ہے۔ آج کے علمی، اخلاقی اور نظریاتی میدان میں اگر ہم غزوہ ہند کی روح کو اپنائیں تو برصغیر کا مسلمان صرف فتحِ زمین نہیں بلکہ فتحِ ایمان کے مشن پر گامزن ہو سکتا ہے۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں