غزوہ خیبر اور فاتح خیبر

اسلام کی سنہری تاریخ اور تاریخی کارناموں میں یہ بات درج ہے کہ غزوہ خیبر ان فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک جنگ ہے جس میں یہودیت کے بڑے بڑے برج الٹ گئے۔ یہودیت کی سازش اور طاقت پارہ پارہ ہوگئی اس جنگ کے بعد مسلمانوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوگیا۔ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو فتح جیسی دولت سے سرفراز فرمایا۔یہ ایسا موقع تھا جس میں مسلمانوں کوایسی شاندار فتح عطاء فرمائی جو تاقیامت دنیا کو بلخصوص دشمنان دین اسلام کو ہمیشہ یاد رہے گی۔

سن 7ہجری محرم الحرام میں غزوہ خیبرپیش آیاغزوہ خیبر کانام ایک شہر سے منسوب ہے یہ جگہ خوبصورت کجھور کے گھنے درختوں اور ہریالی سے مزین تھی۔یہاں بہت سارے مضبوط قلعے بھی قائم تھے جو بطور ڈھال استعمال کئے جاتے تھے۔ یہاں مسلمانوں کی یہودیت سے جنگ ہوئی جس میں حضور نبی کریم روف الرحیمﷺ بھی شریک ہوئے آپ ﷺکے ساتھ آپ کے نامور جاں نثار وفادار اصحاب الرسولﷺ بھی شریک ہوئے۔یہاں جنگ کی بنیادی وجہ یہودیوں کی سازشیں مسلمانوں پربغیر کسی وجہ کے حملے تھے۔مدینہ منورہ میں سازش کرنے والے یہودیوں کوجب جلا وطن کیاگیا تو ان یہودیوں نے یہاں پناہ لی اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ مل کرمسلمانوں کو مالی و جانی نقصان پہنچانا شروع کیا‘

جواب میں یہودیت کے بڑے بڑے لوگ مارے گئے لیکن یہ چین سے نابیٹھے مزیدمدینہ منورہ پرحملہ کی منصوبہ بندی کرنے لگے یہ اس سازش میں اکیلے نا تھے بلکہ ان یہودیوں نے یہاں کے قبیلہ غطفان کے لوگوں کوبھی اپنے ساتھ ملا لیایہ قبیلہ عرب کاطاقتور اور جنگجو ماناجاتاتھاجس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے اپنا دفاع کرتے ہوئے ان سازش کرنے والوں کو سبق سیکھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے خیبرکا رخ کیا۔ یہود کے پاس 20 ہزار کی فوج تیار ہوچکی تھی ان میں ایک مرحب سردار بھی تھااور ان یہودیوں نے خیبرکے مضبوط قلعہ قموص میں پناہ لے لی جبکہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے حضور نبی کریم روف الرحیمﷺ اپنے 16سو جاں نثار وفادار اصحاب الرسولﷺ کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں بہت سارے قلعے تھے سب سے پہلے قلعہ ناعم پرلڑائی شروع ہوئی اس میں صحابی رسول حضرت محمودؓ بن مسلمہ شہیدہوگئے

یہ قلعہ مسلمانوں نے فتح کر لیا خیبر کے قریب جب رسول اللہﷺ مقام صہباء پر پہنچے توکھانے کی طلب کی حضورﷺ کیلئے ستو پیش کیا گیاپھرحضورخیبرکے بازارتک پہنچے۔ یہودیوں کاخیال تھا مسلمان جنگ نہیں کریں گے کیونکہ یہودیوں کی تعدادبہت زیادہ تھی اسلحہ زیادہ تھا اوربظاہرقوت زیادہ تھی روزانہ دس ہزار کالشکرقطار در قطارنکل کرچکرلگاتا‘ مسلمانوں کا ناپاتاتوواپس خوشی سے چلے جاتا۔

رسول اللہﷺ رات کے اندھیرے میں حملہ نہیں کرتے صبح کاانتظارفرماتے اگروہاں آذان ہوتی توحملہ کا ارادہ ترک فرماتے ورنہ حملہ کردیتے‘ رسول اللّٰہ ﷺسواری پرسوارہوگئے یہ اعلان جنگ تھا جب وہاں کے لوگ اپنے کاموں کے سلسہ میں باہرنکلے‘ رسول اللہﷺ کودیکھاتوالٹے پاؤں بھاگنے لگے‘ رسول اللّٰہﷺ نے ہاتھ اٹھاکر فرمایا خیبرتباہ ہوگیا نظاہ کے قلعے پر یہودیوں کے پانی کا راستہ بند کیا توانہوں نے بہت سخت جنگ کی جس میں مسلمان بھی شہید ہوئے اور دس یہودی قتل ہوگئے۔ اس کے بعدآپ شق کی طرف روانہ ہوئے یہ ایک قسم کی چھاؤنی تھی یہاں بھی سخت مزاحمت کا سامناکرناپڑا وہاں کے یہودیوں نے مسلمانوں پر تیروں پتھروں کی بارش کردی حضور نے مٹھی بھر کنکریاں قلعہ پر پھینکی تو وہاں لرزہ پیدا ہوگیا

قلعہ فتح ہوگیادیگرقلعے بھی فتح ہوتے گئے بلآخرمسلمان قموص تک
پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ مرحب اس قلعہ کی خودنگرانی کررہاتھا اس قلعہ پر بہت دن گزرگئے لیکن یہ فتح نہیں ہورہاتھا سیدنا صدیق اکبر نے شدت سے حملہ کیانبی اکرم شفیع اعظمﷺنے اپنے جاں نثار اصحاب سے فرمایا کل میں اس شخص کو جھنڈاعنایت کروں گا جس کے ہاتھ پر اللّٰہ فتح دے گا۔حضرت بریدہ فرماتے ہیں اس دن ہرکسی کی خواہش تھی کہ جھنڈا اسے عطاکیاجائے کہ یہ بات سننی تھی کہ اصحاب الرسول بے چین وبے قرار ہوگئے کون ہے وہ خوش نصیب و خوش قسمت جس کو یہ سعادت حاصل ہو۔

اصحاب الرسولﷺ نے رات بے چینی سے گزاری‘صبح ہوتے ہی نبی کریم روف الرحیمﷺ نے ارشاد فرمایا علی کہاں ہیں صحابہ کرامؓ نے عرض کیاوہ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہیں نبی اکرم شفیع اعظمﷺحکم ارشاد فرمایا کہ انہیں پیش کیاجائے جب حضرت علی المرتضیٰؓ شیرخدا حاضرہوئے تو حضور اکرمﷺ نے اپنالعاب دہن لگایا حضرت علی المرتضیٰؓ کی تکلیف فوراً دورہوگئی انہیں ایسا محسوس ہواگویاتکلیف تھی ہی نہیں۔ چنانچہ شیرخدا نے جھنڈا تھاما اور عرض کی یا رسول اللّہ میں اس وقت تک لڑوں گا جب تک یہ مسلمان نا ہو جائیں۔ حضور نے فرمایا اگر ان میں سے ایک بھی مسلمان ہو گیا تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بہترہے۔

حضرت علی نے جھنڈا قلعہ کے نیچے گاڑھ دیاقلعہ سے جو سب سے پہلے شیرخدا سے لڑنے آیا وہ مرحب کا بھائی حارث تھا‘حضرت علی نے اسے قتل کردیا پھر عامر قلعہ سے باہر آیایہ شخص دراز قد بھاری جسم والا تھا حضرت علی نے اسے بھی قتل کردیااس کے بعد یاسرنکل کرآیا‘حضرت زبیرنے اسے قتل کردیا‘ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ جو اپنی بہادری جرآت دلیری شجاعت جواں مردی میں بے مثال تھے آپ نے مرحب پر اس شدت سے حملہ کیاکہ اس کے سر پروار کیا اس کے سر میں ذوالفقار حیدری اتار دی‘

اس کے بعد آپ نے خیبر کا دروازہ بھی اکھاڑ پھینکا یہودیوں کو عبرت ناک شکست ہوئی مسلمانوں کو مال غنیمت حاصل ہوا سوزرہیں چارسو تلواریں پانچ سو عربی کمانیں اور بھی بے شمار مال حاصل ہوا ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اپنی اولادوں کو اپنے ان عظیم سپہ سالاروں کی جرآت وبہادری سے بھرپور تاریخ یاد کرائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں فخر کیساتھ ساتھ ان راہوں پرچلیں تاکہ کوئی دین دشمن عناصر مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی جرآت ناکرسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں