غزل

کہانی میں سبھی کردار بدلے ہیں
مِرے دشمن وہیں ہیں، یار بدلے ہیں
وہ بدلے تھے ہزاروں مرتبہ لیکن
بہت بدلے ہیں جو اِس بار بدلے ہیں
ہے گلشن میں یہ کیوں اِتنی اُداسی اب؟
خدایا! کیوں گل و گلزار بدلے ہیں
نہیں اِک شخص بدلا بس زمانے میں
زمین و آسماں دِلدار بدلے ہیں
کوئی آئے نہ اب حرفِ تسلی دے
قیامت ہے مِرے سرکار بدلے ہیں
زلیخا اب کہاں ڈھونڈو گی یُوسف کو؟
غلاموں کے بھی اب معیار بدلے ہیں
محبت کو دی حفصہ بد دعا تُو نے
نہ جانے کیوں ترے افکار بدلے ہیں
(حفصہ فریال بلوچ‘کوئٹہ)

اپنا تبصرہ بھیجیں