غریب کی بچیاں کراچی سے مل گیئں

عبدلستار نیازی/پنڈی پوسٹ

ہمارے ہاں کامیاب کاروباری اس کو کہا جاتاہے جو اپنا منافع دو گنا وصول کرے، رمضان میں جو ایسا کام کرے اس کو منافع خور کہا جاتاہے جبکہ رمضان کے علاوہ چونکہ سب چلتاہے اس لئے منافع دو گنا کی بجائے تین گنا بھی وصول کریں تو چلتاہے، چونکہ رمضان المبارک میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد پورے سال کی نسبت خریداری زیادہ کرتے ہیں اس لئے ماتھے پہ سجدوں کے نشان ، ہاتھ میں تسبیح ، سر پہ ٹوپی ، پانچ وقت نماز کی پابندی اور آخری عشرہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کیلئے سعودی عرب جانے والے پہلے دو عشروں میں عوام کی ایسی کھال ادھیڑتے ہیں کہ خدا کی پناہ، لیکن چونکہ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور سعودی عرب عمرہ بھی کرآتے ہیں تو وہ اور ان کے حواری سمجھتے ہیں کہ دو عشروں کی ”کپا ٹُکی“ ان کو معاف ہو جائے گی، بابا یہ آپ کی بھول ہے ، پانچ وقت کی نماز اگر آپ پڑھتے ہیں تو یہ حقوق اللہ ہیں، عمرہ کرتے ہیں تو وہ بھی حقوق اللہ ہیں، ذکر اذکار کرتے ہیں تو وہ حقوق اللہ ہیں، اور یہی بزرگان دین سے سنتے آئے ہیں کہ حقوق اللہ تو رب کائنات کی مرضی ہے کہ وہ معاف کرے یا نہ کرے لیکن حقوق العباد پہ قیامت کے دن ضرور پکڑ ہوگی، اس لئے آخرت کی فکر کرنی چاہیے، بات چونکہ میں نے کامیاب کاروباری لوگوں سے شروع کی تھی تو یہاں بات ہو جائے سستے رمضان بازار کی جو نام کا سستا رمضان بازار تو ہے مگر ہمیشہ اس میں عوام کو ہی چونا لگایاجاتاہے، گوجرخان میں لگے سستے رمضان بازار کی سب اچھا کی رپورٹ حکام بالا تک پہنچائی جاتی ہے لیکن حقیقت حال کچھ اور ہی ہے، کامیاب کاروباری وہی کہلاتا ہے جو اپنا منافع ٹھیک کماتاہے ، لہٰذا سستے رمضان بازار میں سٹال لگانے والوں کو بھی کامیاب کاروباری ہی تصور کیاجائے کیونکہ سستا رمضان بازار میں حکومت کی مرضی کے مطابق ریٹ دینا ہے تو مال وہ خریدناہے جو سستا اور غیرمعیاری ہو، گزشتہ روز میں آلو پیاز اور لہسن لینے کی غرض سے رمضان بازار گیا، وہاں حالت زار دیکھ کر میں اُلٹے پاﺅں واپس پلٹ آیا، غیر معیاری اشیاءکی بھرمار ، سبزی کا ایک سٹال اس پہ بھی سبزی ناپید ، چینی کا دو کلو کا پیکٹ دستیاب ہے جو ایک شخص کو ایک ہی ملتا ہے، آٹے کا دس کلو بیگ ایک شخص کو ایک ہی ملتاہے، مشروبات ناقص کمپنیوں کے دستیاب ہیں، فروٹ ایسا کہ دیکھنے اور ہاتھ لگانے کے بعد انسان روزے کی حالت میں سیر ہوجاتاہے ، کچے سیب عوام کا منہ چڑا رہے ہیں، غرض یہ کہ جو بھی سستے رمضان بازار میں سٹال لگاتاہے وہ منافع کماتاہے کیونکہ ناقص اور غیرمعیاری سستی اشیاءجب خرید کر سٹال پر لگائی جائیں گی تو میرے جیسا دیہاڑی دار شخص ان کو خریدنے کیلئے سستے رمضان بازار کا رُخ نہیں کرے گا تو مڈل کلاس اور امیر طبقے سے کیا توقع کیاجاسکتی ہے، سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلدیہ گوجرخان، ایڈمنسٹریٹر گوجرخان، ڈی سی راولپنڈی ، حکومت پنجاب کیا اپنی جیب سے سستے رمضان بازار لگاتی ہے؟ لاکھوں کا خرچہ عوام کے ٹیکس کی رقم سے دے کر پھر عوام پر ہی احسان کیوں کیاجاتاہے؟ اس پہ باز پرس ہوگی ، اس دنیا میں نہیں ہوگی تو آخرت میں اس ایک ایک روپے کا حساب دینا ہوگا، اس کیلئے تیاری کیجیے، عوام نے ان سستے رمضان بازاروں کو مکمل فیل قرار دیاہے، اب بات کرتے ہیں گوجرخان شہر سے 45دن قبل اغواءہونے والی بچیوں کی ، جو کراچی سے بازیاب کرالی گئی ہیں، غریب خاندان کی مقامی نمائندوں نے تو نہ سنی ، رب نے سُن لی ، نامزد ملزمان فہیم اور اسکی بیوی کو بھی گرفتار کر لیا گیااور میں جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو اس سے چند منٹ قبل میری بات قاسم صغیر بھٹی سے ہوئی اور ان کا کہنا ہے کہ ملتان پہنچ چکے ہیں آج رات یا علی الصبح گوجرخان پہنچ جائیں گے، یہاں پر میں قاسم صغیر بھٹی اور ان کے خاندان کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں جنہوں نے منتخب نمائندوں کی بے حسی کو چیلنج سمجھتے ہوئے خود ذاتی دلچسپی لی اور ملزمان کا سراغ لگانے کیلئے کراچی تک کا سفر کیا اور بالآخر مقصد میں کامیاب ہوئے ، اطلاعات کے مطابق تین گاڑیاں کراچی میں ملزمان اور لڑکیوں کے سراغ لگانے کیلئے چاریوم قبل گئی تھیں جنہوں نے انتھک محنت کے بعد ملزمان اور اغواءشدہ لڑکیوں کو ڈھونڈ نکالا، میں نے بھی اس بابت بارہا اپنے قلم کو جنبش دی ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر غریب گھرانے کی آواز کو اُٹھایا، میں اس کاوش پر رب کے حضور سے اجر کا امیدوار ہوں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر کی اس اہم کیس میں عدم دلچسپی نے کئی سوالات اُٹھا دیئے ہیں، منتخب مقامی قیادت کی عدم دلچسپی سے شہریوں میں عدم تحفظ کی فضا قائم ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ فوٹوسیشن کے علاوہ عملی اقدامات اٹھائے جانے چاہیے تھے جو کہ اس کیس میں بہت دیر بعد اُٹھائے گئے ، غریب کی شنوائی کسی ادارے میں نہیں ہوتی، 11اپریل کو گوجرخان میں ہونے والی کھلی کچہری میں سی پی او راولپنڈی نے تین دن کا نوٹس دیتے ہوئے پولیس کو ملزمان کو گرفتار کرنے کا ٹاسک دیا تھا جس میں سی پی او راولپنڈی اور ان کی ٹیم ناکام رہے، تاہم راجہ قاسم صغیر بھٹی کی مسلسل کاوشوں سے ملزمان کی گرفتاری ہوئی جس پر شہری حلقوں نے ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں