غریب کی آہ آسمانوں کا سینہ چیر دیتی ہے

قارئین کرام! یہ ملک خداداد پاکستان خدا کی لازوال نعمت ہے، اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اس ملک کے قوانین پر عملدرآمد کرنا ہمارا اولین فرض ہونا چاہیے لیکن ہم بطور شہری کسی قانون کی پاسداری نہیں کرتے جب تک ڈنڈا ہمارے سر پہ نہ مارا جائے۔گزشتہ روز ایک دفتر میں جانا ہوا جہاں انڈرپاس گوجرخان کے ایک کرایہ دار کی گفتگو جاری تھی، جس نے بتایا کہ اس نے 30 لاکھ روپے دے کر دکان کا سودا NHA کے کنٹریکٹر راجہ بشارت کیساتھ کیا تھا، 15 لاکھ ادا کر دیا جبکہ 15 لاکھ بقایا ادا کرنا تھا کہ انتظامیہ نے آپریشن کر ڈالا اور میری دکان سیل ہو گئی، ایک ہفتہ ہو چکا میری دکان سیل ہے، نہ انتظامیہ دکان کو ڈی سیل کر رہی ہے اور نہ کنٹریکٹر پکڑائی دے رہا ہے، میں سخت پریشان ہوں، وہ موصوف اٹھ کر چلے گئے، اسی دفتر میں بیٹھے بیٹھے مجھے معلوم ہوا کہ جس دکان میں یہ اٹھ کر جانے والے موصوف کاروبار کر رہے ہیں اس کے ساتھ والی دکان ایک شخص نے 56 لاکھ روپے کی خرید کی اور مبینہ طور پہ انہی موصوف نے نے وہ دکان اس شخص کے ہاتھوں فروخت کی ہے، میں بڑا حیران ہوا کہ جگہ NHA کی ہے، ٹھیکیدار (کمپنی) کو یہ جگہ 30 سالہ لیز پر دی گئی تھی، لیز ختم ہونے پر یہ جگہ بمعہ تعمیرات NHA کے پاس واپس چلی جائیں گی تو کنٹریکٹر کس حیثیت سے ان دکانات کی فروخت کر رہا ہے، کنٹریکٹر کرایہ پر دکان دے سکتا ہے مگر فروخت کرنے کی اجازت اسے کس نے دی ہے؟؟؟یہ سوال میرے ذہن میں ابھی بھی ہے اور شاید اس کا جواب بھی مل جائے اور ہو سکتا ہے NHA نے کنٹریکٹر کو ایسا کرنے کی اجازت دی ہو۔اسی دفتر میں بیٹھے بیٹھے مجھے مزید معلومات ملیں کہ 15/20 یوم قبل انڈر پاس کے داخلی خارجی راستے پہ ایک کھوکھا شہری نے 30 لاکھ میں خریدا ہے، اور پھر آپریشن میں سارے کھوکھا جات مسمار ہو گئے انڈرپاس کے اردگرد لگائے جانے والے کھوکھا جات متعدد بار فروخت ہوئے، فرض کریں اگر راجہ بشارت اینڈ کمپنی نے ایک کھوکھا لگانے کی اجازت کیلیے 2 لاکھ آج سے 15/20 سال قبل لئے تو وہ کھوکھا 5/6 بار مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوا جس کی اب مالیت یا ڈیمانڈ 30/35 لاکھ روپے تک پہنچ چکی تھی، جو کرایہ دار ان کھوکھا جات میں مختلف کاروبار کر رہے تھے ان کے گھر کا چولہا یہاں سے دیہاڑی لگا کر چند پیسے کما کر جلتا تھا، زیادہ تر دکانیں موبائل اسسریز، ایزی لوڈ اور ریڈی میڈ کپڑوں جوتوں کی تھیں، جنکی اشیاء میں بچت 100/200 کے حساب سے ہوتی ہے۔ ماہوار کرایہ تقریباً 10/15 ہزار روپے تھا، اس کے علاوہ بجلی کا بِل بھی دینا پڑتا تھا جو کمرشل میٹر کی وجہ سے ہزاروں میں آتا تھا، میرے علم میں ایک ایسا کھوکھا بھی تھا جس کا ماہوار کرایہ 50 ہزار روپے تھا، بجلی کا بِل تقریباً 8 سے 10 ہزار روپے آتا تھا، کھوکھا بیشک پرائم لوکیشن پہ تھا مگر وہ محنت کش کتنی بچت کر لیتا ہو گا؟جو مالکان ماہوار کرایہ 10 ہزار سے 50 ہزار روپے تک لیتے رہے انکے معاملات تو بخیر و خوبی چلتے رہے، مگر جنہوں نے ایک سال، چھ ماہ، تین ماہ قبل کھوکھا 25/30 لاکھ میں خرید کیا تھا ان کی جمع پونجی تو ضائع چلی گئی۔ جن کا آسرا ہی یہ کھوکھا جات تھے جو صبح آ کر دکان کھولتے تھے اور شام تک گرمی سردی میں گاہکوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے، ان کا کیا قصور ہے؟ ملک میں پہلے ہی بیروزگاری نے انتہا کر رکھی ہے، ظلم بالائے ظلم یہ کہ لاکھوں کروڑوں وصول کرنے والا راجہ بشارت اینڈ کمپنی آپریشن کے دن سے اب تک ان مسمار ہونے والے کھوکھا جات کے مالکان و کرایہ داران کو صرف تسلیاں دے رہا ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ آج یا کل موصوف بیرون ملک چلے جائیں کیونکہ وہ سال کے زیادہ دن بیرون ملک سکون کرتے ہیں۔انتظامیہ نے NHA اور بلدیہ کے لیگل ایڈوائزرز وکلاء سے مشاورت کر کے آپریشن کر دیا، انتظامیہ کے مطابق تجاوزات کو ہٹانا ان کے فرائض میں شامل ہے اور اگر سرکاری املاک کی حفاظت نہیں کریں گے تو وہ جوابدہ ہیں۔ مگر دوسری جانب لاکھوں روپے لے کر کھوکھے لگوانے والے، لاکھوں روپے ماہوار کرایہ لینے والے راجہ بشارت اینڈ کمپنی کو کون پوچھے گا؟ کیا غریب کے کاروبار کو تحفظ
فراہم کرنا اس شخص یا کمپنی کی ذمہ داری نہیں تھی؟کیا اس نے معاہدوں میں یہ لکھا تھا کہ یہ کھوکھے غیرقانونی طور پہ لگائے جائیں گے اور جب بھی انتظامیہ آپریشن کرے گی تو وہ ذمہ دار نہیں ہو گا؟ جس کے گھر کا چولہا اس جگہ محنت مزدوری کر کے چلتا تھا وہ تو جیتے جی مر گیا۔ وہ تو راجہ بشارت کو بھی بددعائیں دیتا ہے اور انتظامیہ کو بھی اسے کاروبار چاہیے۔ اسے قانونی و غیرقانونی سے غرض نہیں، اسکے بچے روٹی کا مطالبہ کرتے ہیں، اسکے بچوں کو قانون نہ سمجھایا جائے۔ لیکن افسوس! اس سارے عمل کے دوران گوجرخان کی سیاسی قیادت، منتخب نمائندے اور تاجر رہنما مکمل نااہل نظر آئے، جنہوں نے آج تک اس شہر کی بہتری کیلیے کچھ نہیں سوچا، شہر روز بروز سکڑ رہا ہے مگر کسی کو پرواہ نہیں، تاجر رہنما صرف اپنی سیاست چمکا رہے ہیں، سیاسی نمائندوں کو الیکشن میں تاجر یاد آ جاتا ہے مگر تاجروں کے مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں، شہر کے روز بروز بڑھتے مسائل سے ان کو کوئی واسطہ نہیں کیونکہ انہوں نے تاجر کو بھی مختلف نعروں کے ذریعے اپنی گھٹیا سیاست کیلیے استعمال کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔ لیکن یاد رکھیں، غریب کی آہ آسمانوں کا سینہ چیر دیتی ہے، تم سب اپنے انجام کا انتظار کرو۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں