غریبوں کے والی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

محمد شہزاد نقشبندی / آج سے پندرہ صدیاں قبل غریب اور پسماندہ انسان کی حالت زار اور اس کو معاشرے میں حاصل مقام کے بارے میں بات کی جائے تو اس وقت دنیا کی دو سپر پاورز تھیں ایران اور روم ان دو سپر پاورز کے نادار‘کمزور اور بے بس انسانوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں معلومات کا مطالعہ کیا جائے تو تھوڑا سا درد دل رکھنے والے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ معاشرہ کمزور مجبور و مقہور شخص کے ساتھ اتنا ذلت آمیز اور ہتک آمیز سلوک روا رکھتا تھا جس کے بارے میں سوچ کر ہی انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے غریب و نادار اپنی غربت بے بسی اور بے کسی، مجبور و مقہور اور مظلوم اپنی مظلومیت کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک چکے تھے بے سہاروں کا سہارا‘ بے آسروں کا کوئی آسرا نہیں تھا وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے ظلمت و تاریکی میں کچھ دیکھائی اور سوجھائی نہیں دیتا تھا آنکھوں میں بینائی تھی لیکن دیکھنے کے نور سے محروم کہ ان کو کوئی اچھائی نظر نہیں آتی تھی کان سننے کی طاقت سے مالا مال تھے لیکن اچھی بات سننے کو ترستے تھے قدموں میں چلنے کی بھرپور طاقت تھی لیکن وہ کسی اچھائی کے لئے اٹھنے کا نام نہیں لیتے تھے بازو میں بھرپور قوت اور طاقت تھی لیکن وہ ظلم وستم کے آگے بے بس تھے زبان انتہائی فصیح و بلیغ اور اس پر اتنا ناز کہ دوسروں کو عجمی یعنی گنگا کہتے تھے لیکن کسی کے حقوق کے لیے اس سے ایک جملہ تک نہیں نکلتا تھا دل اتنے سخت ہو چکے تھے کہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے ہی ہاتھوں کے ساتھ زندہ درگور کر دیتے ہیں اور دل کو ذرا سی بھی ملامت محسوس نہیں ہوتی الغرض مردہ روح کے ساتھ چلتے پھرتے تھے زندہ انسانوں کی منڈیاں لگتی تھیں جہاں پر صرف انسانوں کے خالی ڈھانچے ہی بکتے تھے ان کی روحیں تو کب کی مار دی جا چکی تھیں یعنی وہاں پر انسان نہیں انسانیت تذلیل کی جاتی تھی ایسے انسان بکتے تھے جن کے حقوق عام جانوروں سے بھی کم تھے انہیں کھانے پینے رہن سہن کسی قسم کے بھی حقوق حاصل نہیں تھے آج کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ہاں یہاں تو اس سے بھی بدتر حالت تھی وہاں پر غریب اور نادار مسکین مجھول لوگوں کو جانوروں کے ساتھ رکھا جاتا تھا مرنے کے بعد بھی ان کو وہیں زمین کے نیچے
گاڑ دیا جاتا تھا جب انسانیت دم توڑنے لگی تو ہر شے کے خالق و مالک تمام جہانوں کے رازق رب رحیم و کریم نے دوکھی پریشان حال انسانوں پر اپنے خاص اور عظیم ترین لطف و کرم کا فیصلہ کیا جو اس نے اس سے قبل نہیں کیا تھا رب رحمان و رحیم و کریم نے اپنے خاص فضل وکرم اور عنائیت سے اپنے پیارے حبیب حضور نبی رحمت حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں پیدا فرمایا جو غریب مظلوم دکھیارے اور اپنی زندگیوں سے تنگ لوگوں کے لئے امید بن کر پیدا ہوئے جس کے آفتاب عالم تاب سے انسانی معاشرے میں ذلیل حقیر گھٹیا اور کمتر سمجھے گے انسانوں کی تاریک دنیا میں روشنی ہونے لگی جس کی وجہ سے ظلم و استبداد اور استحصال کا خاتمہ ہونا شروع ہوا جس نے آگے چل کر نبی رحمت اور رحمت اللعالمین کے منفرد لقب سے ملقب ہونا تھا جس نے بیواؤں کی پناہ اور یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنا تھا مسکینوں کو اپنے گلے سے لگایا معاشرے کے ٹھکرانے ہوئے لوگوں کو اپنے پہلو میں جگہ دی بے اسروں کا آسرا بنے بے سہاروں کا سہارا بنے وہ بظاہر والد کے سایہ عاطفت سے محروم یتیمی اور بے سروسامانی کے عالم میں جنم لیتا ہے وہ بعد ازاں معاشرے کے محروم اور کمزور ترین افراد
کو جو بنیادی حقوق سے محروم تھے ان کو حقوق عطا فرمائے جب عبداللہ کا در یتیم اور آمنہ کا لال مدینہ منورہ کی ریاست کے سربراہ بنے تو غرباء و مساکین مفلوق الحال مظلوم اور مجبور لوگوں کا اتنا خیال رکھا کہ جو چیز غرباء کے لیے مخصوص تھی اس کو اپنی ذات اور اپنی آل پر ہمیشہ کے لئے ممنوع قرار دے دیا فرمایا صدقہ(زکوۃ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی وسلم پر حرام ہے حالانکہ اس وقت کے سربراہ مملکت ریاست کی ہر شے کے مالک اور مختار کل ہوتے تھے آمنہ کے لال کی شان اتنی بلند کہ خود ارشاد فرمایا قسم بخدا اگرچاہوں تو اللہ کریم میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ چلادے(تاریخ دمشق) لیکن اپنے لئے اللہ کی بارگاہ میں یوں ہاتھ بلند فرماتے اور یوں دعا کیا کرتے اے اللہ مجھے مسکین کی حالت میں زندہ رکھنا اور مسکین کی حالت میں موت دینا مساکین کے گروہوں میں میں ہی میرا حشر فرمانا)جامع ترمذی) ان غریب مسکین بے سہاروں کے ساتھ اتنا گہرا تعلق کہ ان کے بارے میں ارشاد فرمایا میرے پاس غریب اور کمزور لوگوں کو ڈھونڈ کر لاؤ کیونکہ تمہیں جو رزق دیا جاتا ہے اور دشمن کے مقابلے میں جو مدد کی جاتی ہے وہ تمہارے انہی ضعیف لوگوں کے طفیل ہے(ابوداؤد) ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا ہر شے کی ایک چابی ہے اور جنت کی چابی مساکین اور فقراء کی محبت ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے آپ ؐنے ارشاد فرمایا وہ شخص کامل مومن نہیں جو خود تو سیر ہو اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا ہو اور ایک مقام پر مساکین کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا عام فقیر مسلمان لوگوں سے نصف صدی قبل جنت میں داخل ہوں گے اور نصف دن یہاں کے پانچ سو سال کے برابر ہے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا بیوہ اور مسکین کی نگہداشت کرنے والا ایسا ہے جیسے اللہ کے راستے میں کوئی جہاد کرنا یا ایسا شخص جو دن کے روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے (ادب المفرد) الغرض ہر طبقہ انسانی کے حقوق کا خیال رکھا حتیٰ کے زرخرید غلاموں کو اتنا مقام عطا کیا کہ ساری انسانیت اس پر ناز کرتی ہے جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو حضرت بلال حبشی کو حکم دیا کہ اے بلال کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان پڑھو جبکہ مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے رؤسا نیچے کھڑے تھے اور ایک غلام کعبہ کی چھت پر کبھی اسامہ بن زید ایک غلام زادے تھے ان کو اتنا پیار کرتے فرمایاکرتے اسامہ اگر تو لڑکی ہوتی تو میں تمہیں زیور پہناتا تمہیں اچھے کپڑے پہناتا تیرے کانوں کو بالیاں ڈالنے کے لیے چھید کرواتا اپنے آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں سواے تقوی کے اس طرح عبداللہ کے در یتیم نے سسکیاں لیتی ہوئی مظلوم انسانوں کو اوج ثریا پر پہنچا دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں